عبدالستار ایدھی۔۔۔۔۔۔اک عہد تمام ہوا

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر : اے آر طارق
پاکستان کی پہچان،دکھی انسانیت کامان،عہد حاضر کی عظیم شخصیت، نامور معروف سماجی رہنمائ، ایدھی فائونڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی اب دنیا میں نہیں رہے۔وہ کافی عرصہ سے شوگر اور گردہ کے عوارض میں مبتلا تھے،طبیعت خراب ہونے پرہسپتال منتقل کیے گیے ،دوران ڈائلیسسز طبعیت بگڑنے پروینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیامگر طبعیت سنبھل نہ سکی اور اللہ کو پیارے ہوگیے۔ایسے میں اگر ان کے لیے یہ کہا جائے کہ عبدالستار ایدھی انسانیت کی بے لوث خدمت کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

عہد حاضر کی یہ عظیم شخصیت آج ہم میں نہیں رہی مگراپنے ایثار وقربانی اور جذبہ خدمت خلق کے باعث ساری زندگی لوگوں کے دلوں میںزندہ رہیں گیں۔ان کا چھے دہائیوں سے لیکر آخری ایام تک کا عوامی خدمت کا سفر اپنی مثال آپ تھا۔آپ انتہائی سادہ طبعیت کے مالک تھے۔اور آپ نے ساری زندگی کبھی بھی سادہ طرززندگی کوترک نہیں کیا۔ساری زندگی شلوار کرتا استعمال کیا اور کہیں جاتے ہوئے اپنے ہمراہ ہمیشہ دو سوٹ رکھتے ،سادگی کا یہ عالم تھا کہ جو جوتا بیس سال پہلے خریدہ تھا،اسے ہی بوقت خرابی ،مرمت کروا لیتے تھے۔آپ نے پوری زندگی ایدھی فائونڈیشن سے اپنی ذات کے لیے کچھ نہ لیا۔

Service

Service

عوام دوستی اور جذبہ خدمت خلق ہی ان کی حقیقی پہچان تھی۔نمودو نمائش سے ان کو نفرت تھی،یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ ان کے کاموں پر ان کی تعریف کی جائے اور ان کو سراہا جائے۔ ایدھی جیسی ہستی کسی لفظوںکی محتاج نہیں، انہوں نے اپنی ساری زندگی انسانیت کی بے غرض خدمت کی اور بغیر کوئی چھٹی کیے محنت اور ایمانداری سے اپنی ناسازگاری صحت کی پرواہ کیے بغیر مسلسل کا م کرکے ایک عمدہ مثال قائم کی۔ان کے ادارے کے تحت ملک بھر میں اب تک ایک ہزار کے لگ بھگ ایمبولینس کام کر رہی ہیں۔انھوں نے فلاح انسانیت کے جذبہ کے تحت پورے ملک میں کلینک، زچگی سنٹر، پاگل خانے،مردہ خانے ،اولڈہوم ،شیلٹرہوم ،جھولا سروس ،معذوروں کے لیے گھربنائے۔اس کے علاوہ بلڈ بنک ،یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز،پناہ گاہیںاور سکول اور قبرستان بھی بنوائے۔ان کی انسانیت کے لیے گراں قدر خدمات ہیں،جن کو گنوایا نہیں جا سکتا۔

ان کی ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے کی گئی کوششیںتاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔آپ کا خدمت خلق کا یہی جذبہ اور انسان دوستی والا رویہ آپ کو دوسروں سے ممتاز کرگیا،ایسے میں آپ کو مسیحائے انسانیت کے القاب سے نوازا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ سارے جہاں کا درد اپنے سینے میں سموئے اس انسان کاآخری وقت میںبھی حال یہ ہے کہ مرتے مرتے بھی انسانیت پر احسان کر گئے کہ میرے مرنے کے بعدمیرے اعضاء عطیہ کر دیئے جائیںاور یہ کہ مجھے انہی کپڑوں میں دفنادیا جائے ،جن میں، میںاس دنیا فانی سے کوچ کر جائوں،،۔ ان کے فقیر منش،درویش صفت،انسان دوست اور عظیم آدمی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ایسے میں ان کے بارے میں یہی کہوں گا کہ ،،اک شخص سارے جہاں کو ویران کر گیا۔

A.R Tariq

A.R Tariq

تحریر : اے آر طارق
03074450515