تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم بیشک عبدالستارایدھی کی شخصیت بیکسوں، بے بسوں، لاچاروں، بے گھروں، لاوارثوں، مجبوروں اور ناگہانی حوادث میں زخمی ہونے والوں اور حادثات میں ایڑیاں رگڑتے، بلکتے سسکتے، مرتے کٹتے اِنسانوں کی مدد کرنے اور اِنہیں بروقت طبی امداد اور خدمات باہم پہنچانے کے حوالوں سے اِنسانوں کے لئے خود نوبل انعام اور امرت دھارا تھی۔
اِس سے بھی اِنکار نہیں ہے کہ ایک طویل عرصے سے میرے مُلک میرے معاشرے اور میری دنیا کے مصیبت زدہ اِنسانوں کی مدداور خدمت کرنے کے لئے منہمک رہنے والی درویش صفت عبدالستار ایدھی کی شخصیت نہ کبھی کسی تعریف کی محتاج تھی اور نہ اَب جبکہ عرش والوں نے اِنہیں اِن کی زندگی میں زمینِ خداپر اِنسانیت کی انمول خدمات انجام دینے کے صلے میں سلام پیش کرتے ہوئے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔
اَب جہاں جنت کے فرشتے اور جنت کی حوریں حکمِ اللہ تعالیٰ سے اِن کی خدمات کے کئے معمور کردی گئیں ہیں اَب ایسے میں عوامی خدمتگار عبدالستار ایدھی کی شخصیت کو یورپ( زمین ) والے کنجوسوں کے کسی نوبل وبل انعام ضرورت نہیں رہی ہے کیونکہ اَب عبدالستارایدھی کو اللہ رب العزت نے جنت الفردوس میں بلنددرجات عطافرماکرجنت کے وہ عظیم انعامات و اکرامات سے نواز دیاہے جن کا اُس نے دنیا میں اپنے بندوں کی بے لوث خدمت کرنے والوں کو بعداَز موت دینے کا وعدہ کیا ہے ۔
یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یورپ نے عبدالستار ایدھی کی زندگی میں اِنہیں نوبل انعام کا حقدارنہ ٹھیراکرعبدالستارایدھی اور اِن کی نصف صدی سے بھی زائد عرصے تک بلارنگ ونسل، زبان وسرحد، مذہب وملت کی تفریق کئے بغیرخالصتاَ اِنسانیت کی بنیادپر کئے جانے والی خدمات ِاِنسانیت کی بھی بڑی توہین کی ہے یہ اور بات ہے کہ اَب یورپ اِس سے انکار کرے اور اپنی سُبکی مٹانے کے لئے اپنی صفائیاں پیش کرے مگر حقیقت بس یہی ہے کہ یورپ عبدالستار ایدھی کو نوبل انعام دینا ہی نہیں چاہتاتھا اگر اُسے دیناہوتاتو کب کا دے چکا ہوتا۔
Nobel Prize
آج جب فخرِ پاکستان اور شانِ انسانیت عبدالستار ایدھی منوں مٹی تلے آغوش قبر میں ابدی نیند جاسویا ہے اَب اِدھر اُدھرسے لاکھ کہنے سُننے اور سفارشوں کے بعدیورپ بعداَز مرگ اِس درویش صفت اِنسان کو اپنا نوبل انعام دے گا تو کیا دے گا؟؟اَب یورپ اِسے اپنے پاس ہی رکھے ، اَب نہ تو ایدھی کو اِس کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہمیں کسی نوبل وبل انعام کی ضرورت باقی رہی ہے۔
اِس موقع پر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یورپ والوں کو میری یہ بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی کہ محض یورپ نے عبدالستار ایدھی کو اِن کی زندگی میں اِس اعزاز اور انعام سے اِس لئے محروم رکھاتھاکہ ایک تو ایدھی کا تعلق جنوبی ایشیااور دوسرایہ کہ ایدھی صاحب دنیاکے ایک ترقی پذیراسلامی ملک پاکستان کے شہری تھے آج اگر یہی ایدھی صاحب کسی اور مُلک کے شہری ہوتے تو ممکن ہے کہ یورپ اِن کی 75/70سالہ بے لوث اِنسانی خدمات کے صلے میں متعدد مرتبہ نوبل انعامات سے نوازچکاہوگا چونکہ عبدالستار ایدھی صاحب کا تعلق جنوبی ایشیااور مُلکِ پاکستان سے ہے اِس لئے یورپ نے اِنہیں نوبل انعام دینے سے ہیچرمیچر اور کنجوسی کا کھلامظاہر ہ کیا ہے اپنے اِس عمل سے یورپ نے اپنی دوغلی پالیسی کا بین ثبوت دے دیا ہے۔
بہر کیف ،عبدالستار ایدھی کا نام اور ذات نہ صرف سرزمینِ پاکستان بلکہ ساری دنیاکے اِنسانوں کی بے لوث خدمات کے حوالے سے رہتی دنیا تک جیسےانمٹ نقوش چھوڑگئی ہے اَب اِسے کوئی کبھی بھی بنی نوع اِنسانوں کے دل و دماغ سے نہیں کھرج سکتا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالستار ایدھی کی ساری زندگی اور اِن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل جذبہ ءخدمتِ انسانیت سے تعبیرہے ایدھی صاحب پاکستان کا چہرہ تھے وہ دنیا بھر میں سفیر پاکستان کی اپنی پہچان آپ تھے اور اِن کی زندگی اِنسانیت کی خدمات کے حوالوں سے دوسروں کے لئے نہ صرف مشعلِ راہ بلکہ اُن لوگوں کے لئے بھی جو خود کو اللہ کے بندوں کی مدد اور خدمت کرنے کے لئے وقف کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اِن کے لئے یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے اور بابائے خدمت عبدالستار ایدھی کا نام اور ذات میرے دیس پاکستان اور میرے معاشرے اور میری دنیا کے اُن لوگوں کے لئے جو اِنسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اِن کے لئے ایک ایساروشن چراغ ہے جس کی روشنی سے اِنسانوں کو اپنی راہیں متعین کرنے اور اپنی منزلیں تلاش کرنے کا موقعہ ملے گا۔
Abdul Sattar Edhi-Funeral Prayers
بیشک یہ فخر بھی خود پاکستانی قوم کے لئے باعث فخروافتخار ہے کہ میری قوم نے اپنے محسن اور انسانیت کے عظیم خدمت گار قوم کے مسیحا فلاحی تنظیم ایدھی فاونڈیشن کے بانی اور فخرِ پاکستان عبدالستار ایدھی کے جسدِ خاکی کوقومی پرچم میں لپیٹ کرپورے قومی اعزاز کے ساتھ 19توپوں کی سلامی اور گارڈ آف آنر پیش کرکے سُپردِ خاک کیایہ اعزاز کسی سِول پاکستانی شہری کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے، آج جیسا اعزاز عبدالستار ایدھی کو حاصل ہوا ہے یہ اعزازمیری تہذیب میںمیرے دیس میرے معاشرے اور میرے بہت کم لوگوں کو ملاہے۔
آئیں عہد کریں کہ میں اور آپ بھی خود کو فخرِ پاکستان دورش صفت انسان بابائے خدمت عبدالستار ایدھی کی طرح ڈھال لیں گے اور اپنی زندگی کو دوسروں کی بے لوث مدد اور خدمت کرنے کے لئے وقف کریںگے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں بھی اِسی طرح یاد کریں آج جس طرح ہم نے عبدالستارایدھی کو یاد رکھاہے اور ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
اَب آخر میں چلتے چلتے مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ بظاہر تو عبدالستار ایدھی دنیاسے پردہ فرماگئے ہیں مگر یقین جانیئے کہ اِن کا کام جس طرح کل جاری تھاوہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا کیونکہ ایک ایدھی کے انتقال کرجانے سے کام ختم نہیں ہواہے آج میری قوم کے ہرفرد کو خود کو ایدھی بناکر پیش کرناہوگاکیونکہ ایدھی کا اِنسانیت کی خدمت کرنے کا مشن بھی تو جاری رکھنا ہے ناں اور اِسی کے ساتھ ہی میں اپنی حکومت بالخصوص صدرِ پاکستان ممنون حُسین،وزیراعظم نوازشریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور چاروں صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ سمیت مُلک میںکام کرنے والی فلاحی تنظیموں اور اداروں کے سربراہان سے بھی مطالبہ کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کرناچاہوں گاکہ حکومتِ سطح پر میرے مُلک میرے معاشرے اور سرکاری اور نجی اداروں اور پرائمری سے لے کر ہائرایجوکیشن تک جس سطح پر بھی اِنسانیت کی خدمت کے جذبوںسے سرشار متحرک افراد ہوں اِن کے لئے ” عبدالستار ایدھی“ کے نام سے ایوارڈ کا اجراکیاجائے جنہیں ہر سال 14اگست جشنِ آزادی کے موقع پر یہ ایوارڈدیاجائے تاکہ لوگوںمیں اِنسانیت کی خدمت کا جذبہ بیدار ہواور ہر گھر سے ایک ایدھی پیدا ہو۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com