اسلام آباد (جیوڈیسک) افغانستان سے تعلقات میں پائے جانے والے تناؤ میں کمی اور روابط کو معمول پر لانے کے لیے پاکستان کی طرف سے ایک اور کوشش کی گئی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔
کابل میں پاکستان کے سفیر ابرار حسین نے عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کر کے اُنھیں پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے دورے کی باضابطہ دعوت دی۔ چند ماہ قبل بھی توقع کی جا رہی تھی کہ عبداللہ عبداللہ پاکستان کا دورہ کریں گے لیکن کابل میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے دفتر پر مہلک حملے کے بعد ایسا نا ہو سکا۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے اکاؤنٹ پر جاری بیان کے مطابق پاکستان کے سفیر ابرار حسین نے منگل کو اُن سے ملاقات کی تھی، جس میں باہمی دلچپسی کے اُمور بھی زیر بحث آئے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حالیہ مہینوں میں ایک مرتبہ پھر تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
خاص طور پر طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحدی راستے پر پاکستان کی طرف ایک گیٹ کی تعمیر پر دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے درمیان جون میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا، جس سے دونوں ہی جانب جانی نقصان بھی ہوا اور تعلقات مزید نچلی سطح پر آ گئے۔ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور ایک اہم پشتون رہنما آفتاب شیرپاؤ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے ضروری ہیں۔
’’یہ ضرور ہونا چاہیئے کیوں کہ ابھی تعلق بہت نچلی سطح پر پہنچ چکےہیں اور میں نے بھی وزیراعظم نواز شریف کو یہی مشورہ دیا تھا کہ آپ پیش قدمی کریں اور ان (افغانستان) کی لیڈر شپ کو یہاں بلائیں آپ بھی جائیں تاکہ کچھ نہ کچھ رابطے شروع ہو جائیں اور اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ جو خدشات ہیں یا بدگمانی ہے کسی حد تک اس میں کمی آ جائے گی۔‘‘
آفتاب شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ اگر عبداللہ عبداللہ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو اس سے تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد مل سکے گی۔
’’صدر اشرف غنی پہلے آ چکے ہیں، تو ان (عبداللہ عبداللہ) کے آنے سے بھی سے بڑا فرق پڑے گا میرا خیال ہے کہ تھوڑی بہت جو برف پگل جائے گی اور ہم واپس تھوڑا بہت معمول کی طرف چلے جائیں گے۔‘‘
دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کی نگرانی سے متعلق اُمور پر اختلافات کے بعد حال ہی تشکیل شدہ تکنیکی ورکنگ گروپ کی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے درمیانگزشتہ ماہ پہلا رابطہ ہوا تھا اور ایک پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا تھا۔
طور خم سرحد کے ذریعے لوگوں کی آمد و رفت کو منظم بنانے کے لیے پاکستان کی طرف سے تعمیر کیے گئے گیٹ پر افغانستان کو اعتراض ہے۔ پاکستان حکام کا موقف ہے کہ اس گیٹ کی تعمیر کا مقصد سرحد کے دونوں جانب غیر قانونی آمد و رفت کو روکنا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد لگ بھگ 2600 کلو میٹر طویل ہے اور اس کا بیشتر حصہ دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے جسے دہشت گرد ایک سے دوسرے ملک میں آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ملک میں جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکا جائے اور اس کے لیے سرحد کی نگرانی ناگزیر ہے۔