یمن (جیوڈیسک) یمن کے معزول صدر علی عبداللہ صالح نے میدان جنگ میں اپنی پے درپے ناکامیاں دیکھ کر ایک مرتبہ پھر سعودی عرب سے براہ راست مذاکرات کی درخواست کی ہے۔ ادھر صالح کے اتحادی باغی ملیشیا نے بھی مملکت سعودی عرب کے ساتھ امن مذاکرات کا نیا ڈول ڈالنے کی پیشکش کی ہے۔
علی عبداللہ صالح کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات ماننے سے بھی انکار کر دیا کہ ایران اور یمن کے درمیان کوئی اتحاد ہو سکتا ہے۔ انہوں نے صدر عبد ربہ منصور ہادی سے اپیل کی کہ وہ صنعاء آئیں جہاں وہ [صالح] بنفس نفیس ان کا استقبال کریں گے۔
ایک ملتی جلتی پیش رفت میں باغی اتحاد کی جانب سے یمن میں بنائی جانے والے سپریم پولیٹکل کونسل کے سربراہ صالح الصماد نے بھی ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے جس کے بموجب باغی سعودی عرب کی سرحد پر حملے بن کریں گے اور اس کے بدلے میں عرب اتحادی فوج بھی باغیوں کو نشانہ بنانا بند کر دے گی۔
تاہم دوسری جانب یمن کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ عبدالملک المخلافی نے کہا ہے کہ صالح اور حوثی باغیوں یمن میں ایران کے ملوث ہونے کے بارے میں شکوی سیکیورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے گا جس میں اس بات کو ثابت کیا جائے گا کہ ایران، یمن میں اپنے حوثی باغیوں کو اسلحہ منتقل کر رہا ہے۔
یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی نے 72 گھنٹوں کے لئے اگلے ہفتے سے شروع ہونے والی فائر بندی کی تجویز کو انسانی بنیادوں پر تسلیم کرنے کا کہا ہے۔ اس فائر بندی پر عمل امریکی اور یو این عہدیداروں کی کوارڈینیش کے ساتھ ہو گا۔