تحریر: سلطان حسین امریکہ کے صدراتی انتخاب دو دن بعد ہونے والے ہیں جس میں امریکی صدرات کے لیے ہیلری کلنٹن یا ڈونلڈٹر مپ کو منتخب کیا جائے گادونوں ا میدواروں کی ساری توجہ اب ریاست فلوریڈا پر ہے جو اس کا صدارتی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کرئے گا آٹھ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے اب تک تین کروڑ 30 لاکھ افراد ووٹنگ کے دن سے قبل ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیلری کلنٹن کو برتری تو حاصل ہے لیکن ان کے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔اس وقت حبیب بش کے انتخابی مہم سے باہر ہونے کے بعد سابق امریکی صدرجارج بش بھی ہیلری کے حامی ہوچکے ہیں دونوں امیدواروں کی ٹیم اب ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ اپنے حامی ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما بھی ہیلری رکلنٹن کی انتخابی مہم چلارہی ہیں انھیں ہیلری کلنٹن کا سب سے موثر ہتھیار تصور کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی خواتین کے بارے میں نازیبا گفتگو کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سے وہ شدید مشکلات میں ہیں اور رپبلکن پارٹی کے 30 کے قریب سینیئر رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیں گے۔امریکہ ایوانِ نمائندگان کے سپیکر اور رپبلکن جماعت کے ملک میں سب سے اعلی عہدے پر فائز رہنما پال رائن نے کہا تھا کہ خواتین سے متعلق بیان سامنے آنے کے بعد وہ اپنی جماعت کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا دفاع نہیں کریں گے۔پال رائن کے اس بیان کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ رپبلکن ان پر چاروں جانب سے حملہ کر رہے ہیں اور ان کی غداری کا مقابلہ کرنا ڈیموکریٹس کا مقابلہ کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ پر عورتوں کے بارے میں نازیبا گفتگو کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان 2005 کا ہے جس کی ویڈیو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں جاری کی اس ویڈیو ٹیپ میں ڈونلڈ ٹرمپ ٹی وی کے میزبان بلی بش کو یہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں کہ ”اگر آپ سٹار ہیں توخواتین کے ساتھ آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں”ہیلری کلنٹن کی صدارتی مہم میں ان کے شوہر بل کلنٹن ان کی بیٹی چیلسی بھی شامل ہے۔
Hillary Clinton
امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلن البرائٹ بھی ہیلری کی حمایت کررہی ہے جبکہ سار پولن ٹرمپ کی حمایت میں سامنے آئی ہیں ‘ ارب پتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ کو آگے لائے ہیں جہاں امیدوار اپنے حمایتی پیداکرنے میں لگے ہوئے تھے اورہیں وہاں انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے بڑے بڑے لوگو ں سے فنڈ بھی لیے ہیں جبکہ بعض ملک نے بھی انہیں فنڈ دئیے امیدواروں نے اپنی صدارتی مہم کے لیے فنڈ کے حصول اور انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے نابئین مقرر کر رکھے ہیں ہیلری اس وقت اپنے نائبین کو سب سے زیادہ ادائیگی کر رہی ہے ہیلری کلنٹن کی قریبی دوست ہما عابدین جن کے والد کا تعلق بھارت اور والدہ کا پاکستان سے ہے اسوقت امریکہ میں صدارتی مہم کا حصہ بننے والی مہنگی ترین خاتون بن چکی ہیں ان کی سالانہ تنخواہ 227.000 امریکی ڈالر ہے عابدین کو پہلی سہ ماہی میں 09.69.263 ڈالر کی ادائیگی کی گئی تھی جو کسی بھی مہم چلانے والی خاتون کی آمدنی سے زیادہ ہے اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جان پاڈیسلاجو ہیلری کلنٹن مہم کی چیئرمین ہیں کی تنخواہ محض 3.588 امریکی ڈالر ہے جبکہ مہم کے منیجر جینیفرکو 27.825 امریکی ڈالر ادا کیے جاتے ہیں کانگریس کے سابق رکن انتھونی کی اہلیہ(جو اب ان سے علیحدگی اختیار کر چکی ہیں) عابدین ہیلری کلنٹن کی جانب سے شروع کردہ مہم ”ہیلری امریکہ کے لیے” کی وائس چیئرمین ہیں۔
عابدین ہیلری کے معاملات کو آزادانہ طور پر دیکھ رہی ہیں اور اکثر میٹنگ میں بھی ہیلری کی جگہ وہ شامل ہوتی ہیں اس حوالے سے مہم سے وابستہ ہیلری کی قریبی دوست کا کہنا ہے کہ ہیلری عابدین کو اپنا خاص راز دان سمجھتی ہیں اور ان پر بہت زیادہ بھروسہ کرتی ہیں امریکہ میںتاریخی طور پر زیادہ تر ان امیدواروں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے جنہوں نے اپنے انتخابی مہم کیلئے زیادہ رقم اکٹھی کی 2012 کے انتخابات میں صدر اوباما اور ان کے حامیوں نے 100 ارب یعنی ایک کھرب روپے سے زائد رقم اکٹھی تھی جبکہ ان کے مقابل میٹ رومنی نے 99ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی لیکن اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی وہ ہار گئے ایک رپورٹ کے مطابق 2012 کے کانگریس کے انتخابات میں 84 فیصد کامیاب امیدوار وہ تھے جنہوں نے اپنے مدمقابل امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ رقم جمع اور خرچ کی اس وقت تک جو امیدوار میدان میں ہیں۔
ان کی اب تک جمع کی گئی رقوم کا موازنہ کریں تو ہیلری کلنٹن کی واضح برتری نظر آتی ہے۔ ہیلری کلنٹن فنڈ کے حوالے سے اس وقت آگے جارہی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی انتخابی مہم میں 80 فیصد سے زائد رقم ایسے افراد کی طرف سے آئی ہے جو 200 ڈالر یا اس سے کم کی رقم چندہ کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ان کی انتخابی مہم پر روزانہ اڑھائی کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس الیکشن کے اختتام پذیر ہوتے ہوتے یہ دنیا کی تاریخ کا مہنگاترین الیکشن ہو گا اور یہ مہنگا اس لیے ہے کہ ہر امریکی امیدوار امریکہ کے ذریعے دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے امریکی جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اسکا صدر بھی منتخب نمائندوں کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا اب جوصورتحال نظر آرہی ہے اس میں نظر یہی آرہا ہے کہ امریکی جمہوریت بھی دولتمندوں کی محتاج ہو گئی ہے اور اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔
Democrat or Republican
امریکہ میں ہر چار سال بعد انتخابات ہوتے ہیں جس میں ڈیموکرٹیک اور ریپبلکن پارٹیوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے امریکی انتخابات میں پوری دنیا کی نظریں اس پر لگی رہتی ہیں ہر ملک اسے اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ یہ ان کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس کے لیے وہ کسی خاص امیدوار کی حمایت بھی کرتے ہیں اور فنڈ بھی دیتے ہیں امریکی انتخابات کے اثرات پوری دنیا پر پڑتے ہیں اس میں پاکستان بھی شامل ہے اسی لیے ان انتخابات پر پاکستان کی خصوصی نظر رہتی ہے الیکن امریکہ میں ریپلکن پارٹی کی حکومت ہو یا ڈیموکرٹیک پارٹی کی دونوں کی پالیسی میں پاکستان کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور وزارت خارجہ خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں ان کی خوش فہمی اس وقت دور ہوتی ہے جب امریکی صدر ”موشن” میں آتے ہیں ۔امریکہ میں انتخابات جہاں ٹو پارٹی سسٹم کے تحت چل رہے ہیں وہاںاب دو مزید تبدیلیاں بھی دیکھنے کو بھی مل رہی ہیں اس کو آپ تبدیلیاں کہہ لیں یا خرابیاںلیکن جمہوریت کے حوالے سے اسے خرابیاں ہی کہا جاسکتا ہے اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ امریکی انتخابات بھی تیسری دنیاکی طرح اب دولت مندوں کے نرغے میں آگئے ہیں (اور اس میں بھی حکومت خاندان میں رکھنے کی خواہش موجود ہے ) ظاہر ہے جو لوگ امیدوار کو کامیابی کے لیے فنڈ دیں گے کامیابی کے بعد اس سے اپنے مفادات پورے کرنے کی توقع بھی رکھیں گے اسی لیے جہاں امریکی صدراتی امیدوارکو تیسری دنیا کے بعض ممالک اپنے مفادات کے لیے سپورٹ کرتے ہیں۔
وہاں امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیاں بھی انہیں کامیابی کے لیے فنڈ کے نام پر ”رشوت” دیتی ہیں تاکہ مستقبل میں کامیابی کی صورت میںان سے اپنے کام نکلوا سکیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ میں یہی کچھ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ اب ڈیموکریٹ پارٹی ہو یا ری پبلکن پارٹی دونوں پر خاندانی سیاست کی پرچھائیاں پڑ گئی ہیں تاہم ایک بات یہ واضح ہے کہ ریپلکن پارٹی کا امیدوار کامیاب ہو یا ڈیموکرٹیک پارٹی کا دونوں کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے بلکہ دونوں نے پاکستان کے حوالے سے سخت پالیسی ہی اپنانی ہے اگر ہیلری کامیاب ہوتی ہے تو ان کی پالیسی پاکستان دیکھ چکی ہے اس لیے کسی کے حوالے سے بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس حوالے سے اپنی حکمت عملی پہلے سے مرتب کرلینی چاہیے۔