ارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ “(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے۔ اے ہمارے رب ہم سے (یہ عمل) قبول فرما کیونکہ تو خوب سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا۔اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔”(بقرہ:۱۲۷ ،۱۲۸) امتحان میں کامیابی کے بعد امامت کا ملنا وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَایَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ ۔ “اور(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کر دیا۔
Kaaba (old image)
تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔انہوں نے کہا اور میری اولاد سے بھی۔ارشاد ہوا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔”(بقرہ :۱۲۴) کیا کہنا عظمت اور خلّت ِابراہیم کا،وہ واقعاً ایک امت تھے۔انہوں نے اللہ کے کاموں میں پوری وفا کی۔ارشاد ہوا۔ وَاِبرَہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی “اور ابراہیم جس نے (حق اطاعت) پورا کیا۔” (نجم:۳۷) لیکن ان کی زوجہ محترمہ کی وفا مثالی اور کردار عالی تھا۔حضرت ابراہیم کے ہر قول پر امنا وصدقنا کی حقیقی مصداق تھیں،اور ہر تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتیں۔ چھوٹے بچے اسماعیل اور ہاجرہ کو اکیلے مکہ جیسی بے آب و گیاہ زمین میں چھوڑ رہے ہیں نہ پینے کا پانی ہے اور نہ کھانے کیلئے خوراک بننے والی کوئی چیز ۔ سایہ کیلئے کوئی درخت بھی نہیں۔ نہ تو کوئی انسان موجود ہے اور نہ کوئی متنفس لیکن ہاجرہ رضائے خدا ، رضائے ابراہیم پر راضی کھڑی ہیں اللہ نے اس بی بی کو اس قدر عظمت دی کہ اسماعیل کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم جیسے پانی کا تحفہ میّسر ہوابیچاری ہاجرہ پانی کی تلاش کیلئے بھاگ دوڑ میں ہی مشغول رہیں۔ صفا و مروہ شعائر اللہ اور حج کا عظیم رکن بن گئے مکہ آباد ہوا اور اللہ والوں کا مرکز ٹھہرا ۔
ارشاد رب العزت ہوا : رَبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ۔ “اے ہمارے پروردگار! میں اپنی اولادمیں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے قریب بے آب و گیا ہ وادی میں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ یہاں نماز قائم کریں اور(اے اللہ)تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں ۔” ( ابراہیم :۳۷) اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑ وں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں
ارشاد رب العزت ہوتا ہے ۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہ “بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔” (بقرہ :۱۵۸) ادھر اسماعیل رو رہے ہیں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں خدا نے پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہاجرہ تھکی ہوئی آئیں پانی دیکھا تو خوش ہو گئیں ارد گرد مٹی رکھ دی اور کہا زم زم ( رک جا رک جا) تو چشمہ کا نام زم زم پڑ گیا ۔ جب حضرت ابراہیم جانے لگے تو بے چاری عورت نے صرف اتنا کہا۔ اِلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہو ۔ ابراہیم ۔نے کہا اللہ۔یہ سن کر ہاجرہ مطمئن ہو گئیں ۔ عورت کا خلوص اور ماں کی مامتا اس بات کی موجب بنی کہ جب وہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا اور کبھی مروہ کی طرف جاتی تو اللہ کو یہ کام اتنا پسند آیا کہ اس نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکروں کو حج کا واجب رکن قرار دیا ۔ پانی ملا اورجب اس پر ہر طرف سے بند باندھا تو زم زم کہلایا ،حج کے موقع پر یہاں سے پانی لینا مستحب ہے اس پانی سے منہ اور بدن دھونا بھی مستحب ہے۔ آج پوری دنیا میں آب زم زم تبرک کے طور پر پہنچ کر گواہی دے رہا ہے کہ جناب ہاجرہ نے خدا و رسول کی جو اطاعت کی اس کے صدقے میں ہاجرہ کی پیروی کس قدر ضروری ہے۔
Khana Kaaba
پھر آب زم زم کو یہ قدر و منزلت اور عظمت اس بی بی (عورت) کی وجہ سے نصیب ہوئی ۔ ابراہیم ۔کا کام قابل احترام ہے لیکن زوجہ کا احترام بھی ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ (۵) یوسف اور زلیخا خدا وند عالم نے حضرت یوسف کو بہت بلند درجہ عطا فرمایا ان کے قصہ کو احسن القصص (بہترین قصہ) قرار دیا انہیں منتخب فرمایا ان پر نعمتیں عام کیں اور انہیں حکمرانی عطا فرمائی۔ البتہ یہ حقیقت ہے ابتدا میں بھائیوں نے بہت پریشان کیا کنویں میں ڈالا پھربازار فروخت ہوئے اور بعد میں عورتوں نے بھی بہت پریشان کیا لیکن کامیابی وکامرانی آخر کار حضرت یوسف کوہی نصیب ہوئی۔ ارشاد رب العزت ہوا : وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیْلِ الْأَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہ عَلَیْکَ وَعَلٰی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّہَا عَلٰی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔ “تمہارا رب تم کو اسی طرح برگزیدہ کر دے گاتمیں خوابوں کی تعبیر کا علم سکھائے تم اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کریگا جس طرح اس سے پہلے تمہارے اجداد ابراہیم و اسحاق پر کر چکا ہے بے شک تمہارا رب بڑے علم اور حکمت والا ہے۔” (یوسف :۶) بھائیوں کی سازشوں ، ریشہ دانیوں اور ظلم سے حضرت یوسف بک گئے اور پھر عزیز ِمصر کے پاس آگئے۔ اب عورتوں نے اس قدر پریشان کیا کہ خدا کی پناہ !
ارشاد رب العزت ہوا : وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ ہَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللہ إِنَّہ رَبِّیْ أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّہ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَاأَنْ رَّأ بُرْہَانَ رَبِّہ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَہ مِنْ دُبُرٍ وَّأَلْفَیَا سَیِّدَہَا لَدٰ الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَہْلِکَ سُوْئًا إِلاَّ أَنْ یُّسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ ہِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ أَہْلِہَا إِنْ کَانَ قَمِیْصُہُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَإِنْ کَانَ قَمِیْصُہ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ فَلَمَّا رَأَ قَمِیصَہ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّہ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ “اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے ۔اس نے انہیں اپنے ارادہ سے منحرف کرکے اپنی طرف مائل کرناچاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی آ جاوٴ۔ یوسف نے کہا پناہ بہ خدا! یقینا میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے بے شک ظالموں کو فلاح نہیں ملا کرتی اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر وہ اپنے رب کے برہان نہ دیکھ چکے ہوتے ۔ اس طرح ہوا ، تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے ۔ث دونوں آگے نکلنے کی کوشش میں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا۔