اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) بیرون ملک تعلیم یافتہ پاکستانی ڈاکٹرز نے ہاؤس جاب اور نجی پریکٹس کے طریقہ کار کو نرم نہ بنانے پر احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
پاکستانی طبی مراکز میں سہولیات کے فقدان کے باوجود بیرون ملک سے میڈیکل میں گریجویشن کرنے والے ہزاروں ڈاکٹروں کو ہاؤس جاب اور نجی پریکٹس کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے تاہم فارن گریجویٹ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مشکل طریقہ کار کی وجہ ان کے چار سال ضائع کئے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ کار کسی بھی ملک میں نہیں ۔
پاکستان فارن ڈاکٹرز الائنس کے مطابق ملک میں ایسے ڈاکٹروں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں ان ڈاکٹروں نے ”پاکستان فارن ڈاکٹرز الائنس‘‘ کے نام سے باقاعدہ تنظیم بنائی ہے جنہوں نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کی دھمکی دی ہے۔
ان ڈاکٹروں کے مطابق خیبر پختونخوا میں بیرون ملک سے گریجویشن کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد دو ہزار ہے تاہم ان کے ساتھ پندہ سو ڈاکٹرز رابطے میں ہیں، جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے فارن ڈاکٹرز الائنس کے صدر ڈاکٹر فیض اللہ خان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ” ہمارےدواہم مطالبات ہیں ایک ہاؤس جاب کی اجازت دی جائے اور لائسنس کے لیے ون سٹیپ امتحان لیا جائے۔ کیوں کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے تھری اسٹیپ امتحان میں چار سال لگ جاتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں کورونا وائرس کی شکل میں وبا پھیلی ہے، ایسے میں ڈاکٹروں کی خدمات کی اشد ضرورت بھی ہے۔ ” ہمیں ہاؤس جاب کی اجازت دی جائے ہم دیگر ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کورونا کے خلاف جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ اس دوران ہمارا ون اسٹیپ امتحان بھی لیا جائے۔ اس امتحان کے بعد ہمیں لائسنس اور نجی پریکٹس کی اجازت دی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلیں گے پہلے مرحلے میں اپنی فیملی کے ساتھ دھرنا دیں گے۔ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے توخودکشی کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘
ایسے ڈاکٹروں کی تعداد کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت صرف چین میں دس ہزار پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں جن میں زیادہ ترمیڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جب کہ وسط ایشیا کے ممالک سمیت جارجیا، سائپرس، ایران اور کئی دیگر ممالک میں پاکستانی میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت نے حال ہی میں اٹھارہ سو ڈاکٹروں کی تقرری کی ہے تاہم دو ماہ گزرنے کے بعد بھی ان ڈاکٹروں کی تنخواہ کا مسئلہ حل طلب ہے ۔ جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے صوبائی وزیر محنت شوکت علی یوسفزئی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ”پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں صوبے کا عمل دخل نہیں ہے۔ وہ باہر سے پڑھ کر آنے والے ڈاکٹروں کی رجسٹریشن کے لیے اپنے طریقہ کار کے مطابق امتحان لیتے ہیں۔ جس میں بعض ڈاکٹر پہلے مرحلے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جب کہ بعض کو تین چار سال لگ جاتے ہیں۔‘‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کورونا وائرس سے خیبر پپختونخوا میں بدھ کی شام تک ساڑھے تین سو افراد جان بحق ہوئے ہیں۔ دارالحکومت پشاور میں، جہاں صوبے کے تین بڑے ہسپتال ہیں، مرنے والوں کی تعداد دوسو نو بتائی گئی تینوں ٹیچنگ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں،نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ایک بڑی تعداد بھی وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔