تحریر : عنایت کابلگرامی دنیا کے سامنے پاکستان کی تنقیدی صورتِ حال کے باعث پاکستانیوں کے لئے غیر ملکی ویزوں کا حصول مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔آنے والے موسم گرما کیلئے دوست احباب، خاندان سب اپنے سوٹ کیس تیار کررہے ہیں تاکہ اپنی چھٹیاں اپنوں کے ساتھ گزار سکیں۔ بے شک وہ کینڈا میں اپنے خاندان کے ساتھ ملاقات ہو یا بچوں کے ساتھ سیر و تفریح یا ان کی دیرینہ خواہش، یورپ میں چھٹیاں گزارنا۔ہم میں سے بیشتر کے پاس ان لوگوں کی درجنوں کہانیاں ہوںگی جن کی چھٹیاں ان کی گرین کارڈ پر لگنے والی خوفناک سٹیمپ کی وجہ سے برباد ہوئیں”داخلہ ممنوع”۔۔آج کی سکڑتی ہوئی دنیا میں بھی سرحد پار غیر ملکیوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرنے کے لیے ویزا کی تجدید اہم کردار ادا کرتی ہے۔
تقریباً اب ہر ملک ان غیر ملکیوں سے ویزا کے خواہش مند ہوتے ہیں جو ان کے علاقے میں داخلے کے متمنی ہوتے ہیں۔انٹرنیشنل ریزیڈنس اینڈ سیٹیزن شپ پلاننگ میں حصے دارHenley & Postniss نے Herly Visa Restrichion index مرتب کی جس میں ممالک کی رینکنگ، ان کے شہریوں کو دوسرے ممالک میں جانے کے لیے فری ویزے کی سہولت دستیاب ہونے کے مطابق کی۔ اس انڈکس میں نہ صرف دنیا کے 89 فیصد ممالک کی رینکنگ شامل ہے جو انٹرنیشنل آزادانہ سیر وسیاحت سے مستفید ہوتے ہیں بلکہ یہ انٹرنیشنل ریلیشنز کی بھی عکاسی کرتی ہے اور ہر ملک کی انفرادیت کو دوسرے ملک کے ساتھ مشاہدہ بھی کرتی ہے۔یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں کہ پاکستان کا نام انڈکس کے اختتام پر آتا ہے، کیونکہ ہمارے ہمسائے اسلحہ سے لیس ہیں جیسا کہ افغانستان، ایران اور عراق گزشتہ عشرے میں اس گرین پاسپورٹ نے بڑی مستعدی سے کئی رلا دینے والی کہانیاں جمع کرلی ہیں بڑی تعداد میں صرف پاکستانیوں کا ہی انتخاب کیا گیا حقیقت میں وہ گرین پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے زخم رسیدہ تھے۔
انہیں ہوائی اڈوں پر امیگریشن کے دوران توہین آمیز رویہ برداشت کرنا پڑرہا ہے وہ سفارت خانوں میں انٹرویوز کی غرض سے ہی قطاروں میں غیر معینہ ویزا پروسیسنگ اوقات کے لیے انتظار کرتے رہتے ہیں ویب سائٹ اور سفارت خانے بڑی خوش طلبی سے درخواست دہندہ کو بتاتے ہیں کہ ویزا پروسیسنگ کیلئے طے شدہ وقت ایک سے چھ ہفتوں کا ہے اگرچہ یہ بھی حیران کن امر ہے جب اس دستیاب وقت میں بھی ویزا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔بے شک تمام مغربی سفارت کاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ ویزا کیلئے بندش صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر لاگو ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ آج کل جو چہروں میں ایک ٹینشن پائی جاتی ہے وہ بد قسمتی سے ایک ہی مذہب اور ایک ہی عقیدہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بدنامی کا یہ داغ ہمارے دامن پر ہی لگایا جاتا ہے۔ملک کی اندورنی سیروسیاحت، پر تشدد واقعات کی وجہ سے غیر محفوظ قرار پائی ہے اور ساتھ ہی بڑھتے ہوئے ویزا اخراجات، پروسیسنگ کے لیے ناگزیر التوانے اور اپنے شہر سے دوسرے شہر میں سفارت خانوں کے باہر انٹرویو کے لئے اخراجات میں مزید اضافہ نے بیرون ملک سفر کو مزید مشکل اور برق رفتار ہونے کی بناء پر بھی کم کردیا ہے۔عربی ناموں کو قرین قیاس دہشت گردی کے سبب بلیک لسٹ میں شامل کردیا جاتا ہے اور فوراً ہی ٹیررالرٹ کو دیا جاتا ہے جن کے نام مشہور طالبان دہشت گردوں سے مناسبت رکھتے ہوں انہیں تفصیلی تحقیقات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ٹریولر ایجنٹ پورے وثوق سے یہ واضح کردیتے ہیں کہ جن کے نام محمدسے شروع ہوتے ہیں انہیں ویزا پروسیسنگ کے لیے لمبے دورانیہ کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔
بہت سے ویزا پروسیسنگ آفیسر متذبذب ہوتے ہیں کہ درخواست دہندہ اپنے ملک لوٹے گا کہ نہیں؟ آپ بیشتر اخبارات میں ایڈیٹر کی ڈاک میں شکایات بھرے خطوط دیکھیں گے جن میں سن رسیدہ لوگ برطانیہ میں اپنے خاندان سے ملنے کے لیے اور طلباء بروقت ویزا نہ ملنے کی بناء پر اپنی ابتدائی کلاسسز کے چھوٹنے کا گلہ کر رہے ہوں گے۔ یہ تمام لوگ متعلقہ حکام بالا کو اس ہولناک رویے کی طرف متّوجہ کرنے کے لیے زور دے رہے ہوں گے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ویزا آفس کی کھڑکی میں بیٹھنے والے مرد یا عورت، انکے مستقبل کے لیے اختیارِ شاہی رکھتے ہیں وہ آپ کی حب الوطنی اور مستقبل کی رہائش کا تعین کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار اپنے سفر کو طول دینے والوں میں ہوگیا تو اپنے ویزے کی سلامتی کیلئے اور قونصل خانے کو مطمئن کرنے کیلئے ان کے پاس بہترین لائحہ عمل اپنے مالی اثاثوں کا استعمال ہوگا۔ایک پاکستانی جو امریکہ کے انڈر گریڈ کالج کا سند یافتہ تھا جب اس نے چھٹیاں اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کے لیے ارادہ کیا تو اسے بھی ناکامی کا سامناہوا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ہے جو امریکہ کے ویزے کے لیے دوبارہ کوشش نہ کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر بار اس بلا جواز تفریق کا نشانہ بنایا جاتارہے گا اکثریت اس میں دوبارہ درخواست دیتے رہتے ہیں کہ اک دن وہ منتخب ہو ہی جائیں گے۔
Visa Facilitation Services
فارن پالیسی تعلقات اور سیاسی لوگ بھی پاکستانی شہریوں کے وقار کو پوری دنیا میں درپیش اس تنقیدی رائے سے نہیں بچا سکتے۔امریکی سفارت خانے کے کونسلر سیکشن کے چیف کرسٹوفر رچرڈ کہتے ہیں کہ”دنیا کا بد ترین عمل جوآپ کرسکتے ہیں وہ انٹرویو میں سچ نہ بولنے کا عمل ہے(اپنے ویزے کے لیے) رچرڈ پہلے درخواست دینے پر زور دیتے ہیں اپنے سفر کی تاریخ سے پہلے(تجویز کردہ وقت سفر کے مقرر وقت سے تیس مہینے پہلے) اور یہ پوری طرح انٹرویو کے لیے تیار ہونے کے لیے طے شدہ وقت ہے۔ایسے کیسنز بھی ہیں جن میںبیانات کے بعد بہت سے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیداکر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پرحنا عثمانی اور ان کے خاندان نے اسی سال جولائی کے آغاز میں برطانیہ ویزا کے لیے درخواست دی۔ سفارت خانہ سے جواب آنے کا کم از کم دورانیہ مقررہ ہوتا ہے۔ کیس کی انفرادیت پر وقت بدل بھی سکتا ہے لیکن حنا عثمانی سے درخواست دینے کے دو تین دن بعد ہی رجوع کیا گیا۔ مسٹر اور مسز عثمانی اور ان کے تینوں بچوں کے ویزوں کو ردّ کر دیا گیا تھا جواب کے طور پر صرف ایک بیان جو انہیں ملا وہ یہ تھا کہ ”وہ قونصلیٹ کے ذریعے، دوبارہ تفتیش کی اپیل کر سکتے ہیں۔حسن عابد شمسی جو اُوسس ٹریولز میں Visa faislitetion services میں منیجر کے فرائض انجام دیتے ہیں، پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ویزے کے حصول میں تاخیر کے اسباب سیکورٹی خطرات اورمسلمانوں کے بارے میں بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات ہیں۔
ہم شاید کبھی بھی ان درخواست دہندہ کی جانچ کے طریق کار کو نہ جان سکیں گے!!یہ حقیقت ہے کہ نام جیسا کہ محمد نام والوں کو خود یا خودانوسٹی گیشن کے عمل سے گزرنے کا اندازہ ہو جاتا ہے یا پھریقینی طور پر انہیں کافی لمبے دورانیے تک انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے انکے مطابق ٹریول ایجنسیز ویزوں کی فراہمی کے لیے بہتر ذریعے ہیں کیونکہ وہ درخواست دہندہ کو پوری وضاحت سے بیان بھی کردیتی ہیں اور انکے لئے ایک لائحہ عمل بھی ترتیب دے دیتی ہیں” انکار ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے” عام طور پر وہ لوگ جو اپنی فیملی سے ملنے یا پھر کاروبار کی وجہ سے جارہے ہوتے ہیں یا پھر وہ نسبتاً آسان مرحلہ سے گزرتے ہیں جو مردیا عورت اکیلے چھٹیاں گزارنے جارہے ہوتے ہیں۔برطانوی ویزا ایک تو بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور زیادہ دقت طلب اور وقت ضائع کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔
کم از کم دو ہفتوں سے چھ ہفتے یا اس سے بھی زیادہ دورانیہ یہ ہے اس کا قت صرف تھائی قونصلیٹ سب سے کم وقت لیتا ہے اس میں آپ کو درخواست داخل کرنے کے دو دن بعد ہی ویزا فراہم کردیا جاتا ہے۔ ملایشیاء اور سنگاپور بھی زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ تین یا پانچ دن سفارت خانے سے منظوری آنے تک کا وقت درکار ہوتا ہے۔پہلے درخواست دینا ہی واحد حل ہے اور انکار کا اقرار میں بدلنے کا واحد حل سچ اور اپنے ملک کے لئے محبت کا اظہار ہے۔بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود ٹریول ایجنٹ حالات کو بے انتہا خراب نہیں گردانتے، غیر ملکی بارڈرز ابھی بھی پاکستانیوں پر بند نہیں ہوئے کیونکہ انکار کی وجہ کیس کی نوعیت پر انحصار کرتی ہے یہ اس طرح کی کسی یقین دہانی کی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو قسمت اور کسی بھی قسم کے ہرجانہ کی غیر واپسی کا کھیل ہے۔