تحریر : چوہدری عارف پندھیر دنیا میں ہر ایک چیز کسی نہ کسی دوسری چیز سے جڑی ہوتی ہے۔ جب کا میں برطانیہ آیا ہوں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل پر کافی دفعہ قلم اٹھایا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور ان مسائل کے حل بھی اسی طرح ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دیتے ہیں تو میں نے بھی سوچا کہ ایک مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بجائے مجموعی طور پر تمام مسائل کو یکجا کیا جائے اور اس طرح انکا اجتماعی حل تلاش کیا جائے۔
پہلے کالم لکھ کر اسکی کاپیاں حکومت پاکستان کے متعلقہ محکموں کو ارسال کر دیتا۔ ایسا کرنے سے بہت سے مسائل فوری طور پر متعلقہ حکام کے نوٹس پر آ جاتے۔ مگر حکومت اور بیوروکریسی ہمیشہ کی طرح سست روی کا شکار رہی۔ بالآخر حکومتی ایوانوں میں باہمی صلاح مشورے بھی شروع ہوگئے انہی مشوروں کے باعث وزیراعظم کے سیکرٹریٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات کے حل کے لئے ایک شعبہ قائم کیا گیا۔
پھر محتسب اعلیٰ کے دفتر میں اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات سننے کے لئے ایک نیا شعبہ قائم کیا گیا پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ کی نگرانی میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے بھی ایک شعبہ قائم کیا گیا۔ پہلے سے قائم اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت میں ضروری تبدیلیاں کی گئیں۔
اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن کی تشکیل نو کی گئی۔ باقاعدہ قانون سازی کے بعد پنجاب اوورسیز کمیشن قائم کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کی بازگشت سنائی دینے لگی۔
Overseas Pakistan Issues
قومی اسمبلی اور سینٹ میں پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل دی جانے لگیں اور مرکزی سطح پر قانون سازی کیلئے سرگرمیاں بھی تیز ہوتی ہوئی دکھائی گئیں، انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی نے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے قانون سازی پر غوروخوض کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی جس کے متعدد اجلاس ہوچکے ہیں اور اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ تارکین وطن اپنے ووٹ کا استعمال کیسے کریں؟ اور اگر انکو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے تو اسکے قانونی پہلوئوں پر بھی غوروخوض کیا جائے گا۔
اگرچہ ابھی تک اوورسیز پاکستانیوں کے تمام مسائل اپنی جگہ جوں کے تُوں حل طلب موجود ہیں مگر پہلے کی نسبت تبدیلی یہ واقع ہوئی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے تمام مسائل پر کوئی نہ کوئی پیش رفت ضرور ہوچکی ہے۔ اب معاملات آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کے دور میں جو بھی تھوڑی بہت پیش رفت ہوتی ہے وہ نئی آنے والی حکومت کے دور میں ختم ہوکر صفر پر پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا اس مقام پر اوورسیز پاکستانیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ موجودہ دور میں انکے مسائل کے حل کے لئے بہت زیادہ پیش رفت ہوچکی ہے۔
معاملات آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس مقام پر اگر ہم نے چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی کارروائی آگے نہ بڑھائی تو خدانخواستہ پھر کہیں ہم صفر کے مقام پر اپنا سا منہ لیکر نہ کھڑے ہوں۔ لہٰذا اس آخری مرحلہ پر اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے مسائل کو حل کروانے کیلئے موجودہ حکومت پر بھرپور زور دینا ہوگا تاکہ حکومت سرخ فیتے سے بچتے بچاتے ہمارے مسائل کو حل کے مرحلے تک پہنچا سکے۔
Overseas Pakistanis Foundation
اس سلسلے میں ہر پاکستانی کو حکومت پر زور دینا ہوگا کہ وہ ہمارے مسائل کو حل کرنے کا فوری اعلان کرے۔ اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن کے ذریعے تمام مسائل حل کرے جب سے حکومت پاکستان نے برطانیہ کے مشہور قانون دان بیرسٹر امجد ملک کو اوورسیز فائونڈیشن کی گورنر باڈی کا چیئرمین بنایا ہے وہ بہت محنت اور چابک دستی سے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔