تحریر : عنایت کابلگرامی ” صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ” جن کا اپنا نام عبداللہ بن ابوقحافہ بن عامر، کنیت ابوبکر، لقب صدیق ، والدہ ماجدہ کا نام ام الخیر ، جبکہ سلسلہ نسب ساتویں پشت میںنبی اکرم ۖ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کے فضائل اور کمالات انبیاء کرام علیہ سلام کے بعد تمام اگلے اور پچھلے انسانوں میں سب سے اعلیٰ ہیں۔ آپ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ زمانہ جاہلیت میں بھی قوم میں معزز شمار ہوتے تھے۔ آپ نے زمانہ جاہلیت میں نہ کبھی بُت پرستی کی اور نہ ہی کبھی شراب کو استعمال کیا۔
حضرت سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، وہ اس طرح کہ آپ ملک شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا، جو ”بحیرا” نامی راہب کو سنایا۔ اس راہب نے آپ سے پوچھا:تم کہاں سے آئے ہو؟ آپ نے فرمایا: مکہ سے۔ اس نے پھر پوچھا: کونسے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ تو آپ نے فرمایا: قریش سے۔پوچھا: کیا کرتے ہو؟ آپ نے فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا، کسی کو نہ بتایا اور جب نبی اکرم ۖنے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپۖنے یہی واقعہ بطور دلیل آپ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ نے رسول اکرم ۖ کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول(ۖ) ہیں”۔
اسلام قبول کرنے کے بعد آپ ہمیشہ رسول اکرم ۖ کے ساتھ ساتھ رہے ، چایئے وہ میدان جہاد ہو یا دعوت الاللہ، ہر موقعے پر آپ نبی اکرم ۖ کے ایک بہترین مشیر، بہترین ساتھی، بہترین رازدار اور بہترین جانثار بنے رہے، آپ کی اسلام پر اتنے احسانات ہیںکہ رسول اکرم ۖ نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا : جس کا مفہوم ہے کہ میں نے سب کے احسانات کا بدلہ چکادیا ہے، مگر ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کے مجھ پر و اسلام پر اتنے احسانات ہیں کہ جن کا بدلہ روز قیامت اللہ پاک ہی چکائیں گے۔ ( ترمذی شریف)
ویسے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین نبی اکرم ۖ کے دیوانے مستانے و جانثار تھے ، ہر صحابی کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ رسول اکرمۖ پر اپنے جان فیداء کریں، جنگ کے میدانوں میں ہر ایک صحابی کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ نبی اکرم ۖ کے تحفظ میں شہید ہوجائیں، کیونکہ رسول اکرم ۖ پر جان قربان کرناصحابہ کرام کی عین تمنا تھی۔
ان سب میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے ، عشق و محبت اور جانثاری کے جو کمالات ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں تھے وہ تاریخ محبت وجانثاری کے کسی کتاب میں بھی نہیں ملیں گے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عشقِ مصطفی ۖ میں وہ مقام رکھتے ہیں کہ اولین و آخرین میں کوئی بھی اس مقا م تک نہ پہنچ سکا۔یہ صرف زبانی دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس بات پر خود نبی اکرمۖ کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہے۔ جس طرح نبی اکرم ۖ تمام انبیاء علیہ سلام میں افضل ہیں، اس ہی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ میں افضل ہیں، بلکہ انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد سب سے افضل انسان ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں رسول اکرم ۖ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، آپ کی شخصیت ایک ایسی شخصیت تھی جو منبع و وفا ، جود سخا، عشق رسول خدا ۖسے سرشار تھی ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے شان اقدس کو بیان کرنے کے لئے کئی آیات نازل فرمائی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولدہ فرماتی ہے کہ جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) پیدا ہورہے تھے میں اکیلی تھی اور مجھے ایک غیبی آواز سنائی دی، اے اللہ کی بندی! تجھے خوشخبری ہو اس بچے کی جس کا نام آسمانوں پر صدیق ہے اور جو محمد ۖ کا یار اور رفیق ہوگا۔
جب ہی تو علماء فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں۔ نبی اکرم ۖ کا ارشاد مبارک ہے کہ”حضرت ابو بکر صدیق لوگوں میں سب سے بہتر ہیں علاوہ اس کے کہ وہ نبی نہیں۔ایک مرتبہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اکرم ۖکے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اُمت میں سب سے افضل ہیں۔ابو داؤد میں ہے کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا اے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) سن لو میری اُمت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہوگے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک اہم فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ آپ کے والد گرامی،آپ خود آپ کے بیٹے اور پوتے چار پشتیں جنہیں رسول اکرمۖ کی صحابیت کا شرف حاصل ہوا ہو یہ فضیلت کسی اور کو حاصل نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت قرآن مجید سے بھی ثابت ہیں، یوں تو ایمان کی حالت میں نبی اکرم ۖکی بارگاہ فیض رساں سے فیض پانے والے سب صحابی رسول(ۖ) ہی تھے۔روز بروز ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔یہاں تک کہ جب رسول اکرم ۖ اس دنیا سے رخصت ہونے لگے تو اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی تعداد کم و بیش سوالا کھ تک پہنچ چکی تھی۔یہ سبھی نبی اکرمۖ کے غلام اور آپ کے اشارہ پر مرمٹنے والے آپ کے صحابہ ہی تو تھے۔لیکن قرآن کریم نے بطورِ خاص کسی کو صحابی نہیں کہا۔اگر سوا لاکھ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں سے کسی کو بطورِ خاص صحابی کہا گیاتو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات بابر کات ہی ہیں۔ یعنی آپ کی صحابیت قرآن مجید کی آیات سے بھی ثابت ہے۔اسی لئے آپ کی صحابیت کا انکار کرنیوالا باجماعِ امت کا فر و مرتد ہے۔قرآن مجید نے آپ کی شرف صحابیت کا تذکرہ کچھ یوں کیا گیا ہے۔”جب غار میں دو تھے (ابو بکرصدیق دو میں سے دوسرے تھے) تب رسول اکرمۖ اپنے صحابی سے فرما رہے تھے غم نہ کر بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔”(القران)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فضائل اتنے ہے کہ اگر میں اس پر لکھتا رہوں تو ایک ضخیم کتاب کی صورت اختیار کرجائیگا۔ آپ 22 جمادی الثانی 13ھ کے روز دنیا سے رخصت ہوئیں۔ آج بھی گنبد خضریٰ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قربت و معیت نظر آ رہی ہے۔ جو تا قیامت عاشقانِ رسول ۖ کو عشقِ رسالت کی دعوت دیتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو فضیلت و عظمت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سمجھ عطا کریں۔(آمین)