تحریر: حفیظ خٹک نئے تعلیمی سال کا آغاز ہی والدین کیلئے ایک جانب خوشی و اطمینان کا باعث ہوتا ہے وہیں پر بچوں کے والدین کی اکثریت کیلئے ذہنی کوفت اور جسمانی تکالیف کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ بچوں کی سابقہ جماعت میں امتحان اور پھر نتائج کی آمد پر سبھی والدین خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ ان کا بچہ ، بچی بڑے ہورہے ہیں ایک سال کامیابی کے ساتھ ایک کلاس میں گذار کر اچھے نتائج کے بعد اب دوسری جماعت میں جائیں گے۔ نتائج کے بعد تحفے تحائف سے والدین نہ صرف خود بچوں کو نواز تے ہین بلکہ بچوں کے عزیز و اقارت ، دوست احباب بھی اپنے طور کامیابی پر بچوں کو تحفے دیتے ہیں۔ اس پورے عمل کے بعد نئی جماعت میں جانے سے قبل چند ایام بچوں کو اسکولوں میں رحصت کے ملتے ہیں جنہیں بچے منفرد انداز میں مناتے ہیں۔ بڑے بچے جو کہ نویں اور دسویں جماعتوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں وہ چھوٹے بچوں کو مزے سے وقت گذارتے دیکھتے ہیں اور ان اوقات میں اپنے بورڈ کے امتحانات کیلئے ان کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں۔ بچے چند چھٹیوں کے بعد کہ انہیں نئی جماعت میں جانا ہوتا ہے اور نئی جماعت کے آغاز کی باقاعدہ ایک تاریخ کا اعلان ہوچکا ہوتا ہے ، اب نئی جماعت میں نئے یونیوفارم اور نئی کتابوں کے ساتھ بچوں کو اسکول بھیجنا والدین کیلئے مصروف ترین مرحلہ ہوتا ہے۔
کتابوں ، کاپیوں اور اسی نوعیت کی دیگر اشیاء رکھنے والی دکانوں پر سال بھر ہجوم و رش نہیں ہوتا تاہم جب نئی جماعتوں میں کی کتابیں لینے کا وقت آں پہنچتا ہے تب ان دکانوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کتابوں ، کاپیوں کے ساتھ پنسل، ربڑ، شاپنر، اسکیل ، بستہ و دیگر ضروری سامان ہر ایک بچے کو ایک ہی جگہ سے مل جائے تو اسے والدین اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہوپاتا تو انہیں دوسری ، تیسری اور بساچوتھی دکان تک کا دیکھنا پڑ جاتا ہے ۔ قیمتوں کا فرق ، معیار کے ساتھ لازم رہتا ہے۔ بڑی دکان اچھ معیار کے ساتھ اپنی قیمتیں بھی زیادہ رکھتے ہیں اور ان کی نسبت چھوٹی دکانیں کم معیار کے ساتھ قیمتیں بھی کم ہی رکھتے ہیں۔ متعدد اسکول نے ایسا بھی انتظام کیا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دفتر سے ہی کتابیں اور کاپیاں فراہم کرتے ہیں ۔ جن کی قیمت کم و زیادہ ہوتی ہیں۔ کتابوں کے معاملے میں کاپیاں زیادہ اسکول والے فراہم کرتے ہیں ان کے اوپر ان کے اسکول کا نام و پیغام تک درج ہوتا ہے ۔ اس اسکول کی انتظامیہ اپنی کتابوں کے علاوہ دیگر کاپیاں مسترد کردیتی ہیں۔ جس کے باعث بچوں کیلئے یہ لازم ہوتا ہے کہ انہیں کاپیاں اسکول سے ہی لینی ہیں اور انہیں اسکول میں ہی استعمال کرنا ہے۔ کاپیوں کے حصول کیلئے اسکول کے اضافی چکر لگانا ایک اور تکلیف دہ معاملہ بن جاتا ہے ۔ صبح کے اوقات میں ایک جانب اپنی ملازمت بھی کرنی ہے تو دوسری جانب بچوں کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا اور انہیں پورا کرناازحد ضروری ہے۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز پر مختلف اسکولوں اور اسٹیشنری کی دکانوں سمیت بازاروں کا تفصیلی معائنے اور سروے کے بعد کم تناسب میں اطمینان و خوشی کے جذبات دیکھنے میں آئے جبکہ عدم اطمینان و عدم برداشت کے ساتھ ذہنی کوفت و پریشانی زیادہ دیکھنے میں آئی۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسکول کے پرنسپل علی رضا نے کہا کہ تعلیمی سال کے آغاز پر اسکول کے اساتذہ کا باقاعدہ ایک اجلاس ہوتا ہے
Fees
جس میں نئے کورس سمیت دیگر اہم امور پر گفتگو ہوتی ہے۔ فیسوں میں اضافہ بھی اسی اجلاس میں طے کیا جاتا ہے، عام ماشرے میں مہنگائی کا تناسب جانتے ہوئے اسکول کے اساتذہ کے ساتھ دیگر اسٹاف بھی متاثر ہوجاتا ہے جس کے سبب ان کی یہ حواہش ہوتی ہے کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر ان کی ماہانہ تنحواہواں میں اضافہ کیا جانا چاہئے ۔ ان کی اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بسا اوقات ہمیں اسکول کی ماہانہ فیس میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس فیس میں اغافے پر والدین کی اکثریت کو ئی اعتراز نہیں ہوتا ۔ کچھ والدین اس معاملے میں اپنی شکایات سے اپنے جذبات کا اظہار کردیتے ہیں تاہم باہمی گفتگو سے معاملے کو حل کر لیا جاتا ہے۔ ایک اور اسکول کے پرنسپل مختیار احمد کا کہنا تھا کہ آٹھویں جماعت تک کے بچوں کی نئی کلاسوں کے آغاز دیگر اسکولوں سے قدرے تاخیر سے ہوتا ہے جس کی وجہ اسکول میں نویں اور دسویں جماعتو ں کے سینٹر پڑ جانے ہیں۔ ایسے اسکول کی تعداد زیادہ تعداد میں موجود ہے جہاں سینٹرز پڑ جانے کے باعث دیگر بچوں کی عام تعطیلات کرنی پڑ جاتی ہیں۔ فیسوں میں اضافے اور کاپیوں کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اسکول کی اپنی کاپیاں اسکول کیلئے مانفع کا ذریعہ بن جاتاہے تاہم یہ ایک بڑا کام ہے جس کیلئے اسکول انتظامیہ کو خصوصی توجہ دینا پرتی ہے۔چھٹی جماعت میں جانے والی ایک بچی کے والدین نے کہا کہ گذشتہ پانچ برسوں سے یہ ایک مرحلہ مشکل سے گذرتا ہے۔
بچی کی کتابیں ، کاپیاں ، اور اسٹشنریز کے ساتھ نیا نیونیفارم جوتے سب کچھ کم وقت میں لینا ایک تکلیف دہ مرحلہ تو ہوتا ہے لیکن اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گذرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ محنت کے باعث بچوں کے ساتھ ہونے کے باعث ہم تو اس اہم مرحلے میں کچھ سیکھتے ہوئے گذر جاتے ہیں ۔چوتھی اور پانچویں جماعت کا کورس لینے والے والدین نے غصے کے عالم میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ نت نئے کورسسز رکھے ہوتے ہیں ان میں کتابیں کہیں بھی دستایب نہیں ہوتیں ، ایک دکان سے لیکر کئی دکانوں پر جاکر پوچھا لیکن کہیں بھی وہ کتابیں دستیاب نہیں جو مجھے درکار ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کورس واضح اور آسان دہ ہونا چاہئے اور اسکولوں کو چاہئے کہ وہ اپنا اسکول میں پڑھائے جانے والے کورس کو اپنے اسکول سے ہی مہیا کریں اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو کسی بڑی دکا ن کے ساتھ منصوبہ بندی کے ذریعے کام کو آگے بڑھانا چاہئے ۔ انہوں نے اس نقطے پر بھی اعتراز کیا کہ بعض اسکول اپنے ہاں سے بھاری رقم لے کر کاپیاں تو دیتے ہیں لیکن کتابیں نہیں دیتے ۔اسٹیشنری کی دکان پر تیسری جماعت کا کورس لینے کیلئے قطار میں کھڑی خاتون نے کہا کہ بہت دیر سے میں اس قطار میں کھڑی ہوں اور مجھے ااس بات کا علم ہے کہ بچے کی ساری کتابیں یہیں سے مل جائیں گی لیکن اس دکان کے مالکان پر اس وقت غصہ آرہاہے کہ جو یہ بات سجھتے ہیں کہ ان دنوں ان کی اس بڑی دکان پر کس قدر رش ہے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے خریداروں کیلئے کوئی انتظامات نہیں کئے۔
اسٹیشنری کی ایک معروف دکان کے مالک نے کہا کہ ہم نئے تعلیمی سال کے آغاز سے قبل ہی اپنی بھر پور تیاریاں کر لیتے ہیں نئی کتابیں ، کاپیاں اور دیگر تمام تر ضروری اشیاء بڑی مقدار میں رکھ دیتے ہیں لیکن والدین بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں اور ہر گاہک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پہلے اسے اس کی تام اشیاء فراہم کر کے فارغ کیا جائے ۔ ایسا بھی ہم کرتے ہیں کہ اضافی افراد چند ایام کیلئے یا پھر پورے ماہ کیلئے رکھ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کتابیں جب ہول سیل کی مارکیٹوں سے ہی ختم ہوجائیں تو ایسی صورت میں ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ دکانوں کی تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ ایک سے دو ماہ کا وقت ہمارے کاروبار کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ دکانوں پر بے جا رش ، سیکورٹی کے
School
انتظامات ، صفائی اور دیگر معاملات کو دیکھنا اور مسائل کوفوری طور پر حل کرنا پڑتا ہے۔ اسکولوں کی اکثریت کا نیا تعلیمی سال عموما ایک ہی وقت میں شروع ہوتا ہے جس کے سبب والدین کی اکثریت اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے یہاں آتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض اسکولوں کے اندر ہی اسٹیشنری کی دکان ہوتی ہے جس کے باعث اس کیلئے مسائل میں کمی ہوجاتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے اگر حکومت کی سے واضح پالیسی ہو ایک جیسی کتابیں اور کاپیاں ہوں تو تاجروں سمیت والدین کو بھی آسانی رہے لیکن یہاں تو نظام ہی عجب ہے ہر اسکول کا اپنا تعلیمی نظام ہے اپنی کتابیں ہیں۔
کچھ بچوں کے والدین نے یہ بھی بتایا کہ جو بڑی دکانیں ہوتی ہیں ان کے اسکولوں سے معاملات پہلے سے طے ہوتے ہیں ، اس کے ساتھ ان کے پاس حکومت کی جانب سے بھی کتابیں وقت پر وافر مقدار میں پہنچا دی جاتی ہیں، جب والدین کو کوئی ایک اسی دکان ملتی ہے جس پر انہیں اپنی ساری ضروریات مل سکتی ہیں تو ایسے میں ان دکان پر بے جا رش ہوجاتا ہے ۔ زیادہ وقت کے باعث کتابیں تو مل جاتی ہیں اس دوران بھی نہیں دیکھا جاتا کہ خریدی جانی والی اشیاء مہنگی تو نہیں خرید لیں ہیں۔ اس کے ساتھ ایسی مارکیٹو ں اور دکانوں پر جہاں رش ہوتا ہے وہیں پر ٹریفک کا معاملے بھی حل ہونے چاہئیں۔ اس سے کچھ تو عوام کو سکون ملے گا۔ اس معاملے پر ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار نے کہا کہ ان دنوں میں ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ بسا اوقات ہمیں اپنے وقت سے زیادہ دینا پڑتا ہے لیکن عوام کیلئے ہم اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں پورا کرنے کی کسشش کرتے ہیں۔
Books
نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو یا پرانے تعلیمی سال کا اختتام دونوں صورتوں میں اسکول انتظامیہ کی بھرپور جامع منصوبہ بندی نہایت ضروی ہے۔ ایسے اسکولوں بھی شہر قائد میں موجود ہیں جو کہ بچوں کو کتابیں ازخود فراہم کرتے ہیں ، کاپیاں و دیگر ضروریات بھی دیگر اسکولوں کی نسبت کم قیمت پر بچوں کو دیتے ہیں۔ ایک کلاس پاس کر کے اگلی کلاس میں جانے والا بچہ اپنی کتابیں اپنے کلاس ٹیچر کو دے دیتا ہے اور وہ استاد وہ کتابیں نئے آنے والے طالبعلم کو دیتا ہے ۔ اس عمل سے دونوں جانب آسانی رہتی ہے۔ ایسی ہی چھوٹی ترکیبیں اور سوچیں اور ان کے بعد معاملات کو نہ صرف حل کیا جاسکتا ہے بلکہ وقت کو بچاتے ہوئے بچوں کو بہتر انداز میں تعلیمی میدان میں آگے بھی لے جایا جاسکتا ہے ۔ بچے ہماری قوم کا اس ملک کا مستقبل ہیں لہذا اس مستقبل کیلئے عملی اقدامات کیا جانا ازحد ضروری ہے۔