تحریر : شاہ بانو میر یہ بات ہے 2008 کی جب پیپلز پارٹی کی حکومت آچکی تھی – پیرس میں محترمہ فہمیدہ مرزا ایک بڑے سیاسی وفد کے ساتھ تشریف لائی تھیں – اس وقت میں وائس چئیرپرسن تھی پاک پریس کلب کی -لہٍذا سفارخانہ پاکستان نے ہمیں بھی مدعو کیا گیا تھا – محترمہ بشری اے این پی سے ان کے ہمراہ تھیں – میٹ دی پریس میں ان سے میں دو سوال پوچھ سکی – ایک سوال تھا کہ محترمہ جو حکمران آتا ہے اپنا ذہن نظام پر مسلط کرتا ہے – ایک آتا ہے تعریف کیلئے جعلی عکس ڈال کر سروں پر دوپٹے زبردستی رکھواتا ہے – دوسرا آتا ہے وہ سرے سے سوٹ سے دوپٹے ہی غائب کروا کے مغربی روایات کو فروغ دیتا ہے۔
آخر کب وہ ائے گا جو ہمیں صرف مضبوط نظام دے گا جزبات کی بناء پر سیاست میں کامیابی نہیں مانگے گا؟ اسکا جواب نہیں دیا انہوں نے دوسرا سوال تھا کہ محترمہ جب بھی کوئی بڑا لیڈر باہر آتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی اہم وعدہ کر کے جاتا ہے تارکین وطن سے آپ اس ضمن میں کیا وعدہ کر کے جائیں گی۔
اس وقت حکومت کو درپیش خطرات کے پیش نظر کچھ ممالک میں پیپلز پارٹی کیلیے تارکین وطن کو ساتھ ملانے کی غرض سے یہ دورہ کیا گیا تھا وہ انکساری سے بولیں کہ ہماری حکومت کو اندرون ملک اور بیرون ملک کمزور کیا جا رہا ہے ابھی تو میں کچھ دینے نہیں آپ سے اعتماد اور ساتھ مانگنے آئی ہوں – جب وہ وہاں سے رخصت ہوئیں تو ہم کچھ خواتین بھی باہر گاڑی کے پارکنگ سے آنے کا انتظار کر رہی تھیں نگاہ پڑی تو محترمہ فہمیدہ مرزا کی گاڑی کے آگے بغیر کسی ہوٹر کے صرف ایک گاڑی تھی جو انہیں واپس ہوٹل لے کر جا رہی تھی۔
Christmas
دسمبر کا آغاز ہونے والا تھا کرسمس کی لائٹس کا جلوہ دنیا بھر سے سیاح دیکھنے آتے تھے – ہزاروں کی تعداد میں سفارخانے سے اگلی سڑک “” شانزے لیزے “” کی ہے جہاں ان کی گاڑی بغیر کسی پروٹوکول کے فراٹے بھرتے ہوئے جا رہی تھی – اس وقت ایک سوچ ذہن میں ابھری کہ درجنوں کاروں کے ہجوم میں یہ سفر کرنے والے وی آئی پی ہماری خاطر نہ سہی اپنے لئے ہی سہی کہ وہ بے فکری سے سفر کر سکیں پاکستان کے نظام کو درست کر دیں – یہ وی آئی پی کلچر نجانے کتنی تکلیف میں عوام کو آج تک مبتلا کر چکا ہے۔
آج پھر ایک سانحہ ہوگیا – ایک بات کا البتہ افسوس ہوتا ہے کہ کوئی گھر دکھوں میں ڈوب گیا کسی کا جگر گوشہ چلا گیا ٹی وی والے اللہ کے خوف سے بالکل عاری ہوگئے ہیں حادثے کو سیاست بنا کر نجانے کیا سے کیا بناتے جا رہے ایک بات سچ ہے بلاول کو اگر پتہ ہوتا کہ سڑک پر کوئی ایسا انسان پریشان بھاگ رہا ہے جس کی بیٹی کی جاں لبوں پر ہے۔
یہ وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ انسان ہے اور عوامی رہنما ہےپتہ چلنے پر وہ ٹریفک کو رکوا دیتا یہ حادثہ ہے اور اسے سیاست بنانے سے اجتناب برتنا چاہیے البتہ پروٹوکول پر پابندی ہونی چاہیے – ویسے ہی پرسکون انداز میں انہیں اپنے ملک میں بے فکری سے پھرنا چاہیے جیسے فہمیدہ مرزا کو خود اپنی آنکھوں سے ایک کار کی معیت میں سفر کرتے دیکھا -کاش کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔