تحریر : لقمان اسد ہم من حیث القوم ایسا رنگ روپ اور ایسے حادثی رویے اختیار کرتے چلے جارہے ہیں کہ گویا ہم تاریخ ہی کے منہ پر جیسے تھپڑ رسید کرکے یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ہم اور ہمارا وجود کسی عمل جدوجہد، کسی نظریے اورکازیا نصب العین کے تحت وجود میں ہرگز عمل میں نہ آیا بلکہ یہ سب ہمیں حادثاتی طور پر نصیب ہوا، گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد کے کچھ عرصہ سے عجیب تماشہ اس دھرتی پر لگا ہے عام آدمی کے حقوق کی جدوجہد کا نعرہ لگانے والے سیاسی لیڈر انہی عام لوگوں کے استحصال کیلئے ہمہ وقت تیار اور آگے آگے دکھائی دیتے ہیں کئی روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی دفترنائن زیرو پر رینجرز نے چھاپہ مارا تو پاکستان کے 19کروڑ عوام کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ اب اس ملک میں سیاست اور خدمت خلق کے نام پر بس یہی کچھ ہونا باقی تھا کہ سیاسی جماعتوں کے دفتروں سے بے شمار اسلحہ برآمد ہوا اور اسی پر محض اکتفا یا بس نہیں
بلکہ عدالتی سزا یافتہ مجرم اور خطرناک اشتہاری بھی وہیں سے پکڑے جائیں،1992میں بھی کراچی میں اسی طرز کے آپریشن کا آغاز کیا گیا تب اس آپریشن کے دوران ایسے قحبہ خانوں کا سراغ ملا کہ جن کی حقیقت انسانی دلوں کے دہلا دینے والی تھی ان قحبہ خانوں میں انسانیت سوز مظالم کی داستانیں زندہ انسانوں پر رقم ہوتیں، ہاتھوں کی انگلیوں سے ناخن چھین لیے جاتے، زبان گُدی سے کھینچ لی جاتی زندہ اور جیتے جاگتے انسانوں کی ٹانگیں اور بازو کاٹ کر جہاں جن قحبہ خانوں میں انکے جسم سے جدا کردیے جاتے غالباً اسی آپریشن کے دوران ”جناح پور”کے نقشے بھی کہیں سے سیکورٹی اداروں اور خفیہ اداروں کے ہاتھ آئے۔
اب جبکہ جس دن سے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپہ مار کر بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کیا ہے اور خطرناک اشتہاری مجرم بھی گرفتار کرلیے ہیں تب اسی دن سے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین کی جانب سے عجیب وغریب قسم کے بیانات کا سلسلہ جاری ہے”میں نہیں جانتا”کا فقرہ وہ مسلسل دھراتے چلے جارہے ہیں اس واقعہ کے بعد سب سے پہلا جو موقف جناب الطاف حسین کی جانب سے میڈیا کے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ” نائن زیرو پر اسلحہ رینجر والے کمبل میں اوڑھ کر لے آئے پھر آگے چل کر انہوں نے ارشاد فرمایا اگر کچھ کارکنان غلط کاموں میں واقعتاً ملوث تھے تو دنیا پڑی ہے کہیں اور چلے جاتے نائن زیرو وہ نہ آتے میں بھی تو کئی برس سے لندن بیٹھاہوں۔
Altaf Hussain
قائد متحدہ کا کہنا بجا مگر وہ اس باب میں ارشاد فرمایاکہ ان کے اس ابتدائی موقف کو پاکستان کے لوگ کسی معنی ومفہوم میں تصور کریں وہ جماعت کے قائد ہیں اگر انکو علم نہیں کہ انکی جماعت کے ہیڈ کوارٹر کی سرگرمیاں کیا ہیں یا انکے دفتر میں موجود لوگوں کے شب وروز کس شغل میں گزرتے ہیں پھر اس کی ذمہ داری آخر کس پرآن پڑتی ہے اور پاکستانی قوم کے ذہنوں میں متحدہ قومی موومنٹ سے متعلق اٹھنے والے سوالات کے جواب دینا کس کافریضہ اور ذمہ داری بنتی ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ جب سے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی تب سے یہ جماعت کسی نہ کسی حوالے سے متنازعہ چلی آرہی ہے کبھی متحدہ قومی موومنٹ پر ٹارگٹ کلنگ کے الزامات عائد ہوئے توکبھی لسانیت کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والی جماعت اسے کہا گیا
اور کبھی بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہونے کے خدشات متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے ظاہر کیے جاتے رہے یہ سب الزامات عرصہ دراز سے متحدہ قومی موومنٹ کی مخالف سیاسی جماعتیں متحدہ قومی موومنت پر عائد کرتی چلی آرہی ہیں اب پہلا سوال اس بابت یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ سب باتیں متحدہ کے حوالے سے مضحکہ خیز تسلیم کرلی جائیں اور یوں تصور کرلیا جائے کہ یہ الزامات ہی محض ہیںاور حقیقت سے انکا کوئی تعلق نہ ہے تو آخرآج دن تک متحدہ قومی موومنٹ مکمل سنجیدگی اورذمہ داری کے ساتھ ان الزامات کو رد کیوں نہ کرسکی؟
جبکہ دوسرا سوال اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت تسلسل کے ساتھ اپنے لگائے جانے والے ایسے تمام تر انتظامات کو ہمیشہ سے مسترد کرتی چلی آرہی ہیں تو اپنی جماعت کے قیام سے لیکر آج دن تک وہ ایسے برے اور بدنام تشخص سے اپنی اور اپنی جماعت کی جان کیوں نہ چھڑواسکی؟