حادثوں کا کمال ہو جیسے تجھ کو کھونا وصال ہو جیسے تجھ سے مِل کر اداس ہو جانا میرا پہلا سوال ہو جیسے وقت بے وقت ہنسنا اور رونا زندگی حسبِ حال ہو جیسے زرد پتوں کا یوں بِکھر جانا بھولا بھٹکا خیال ہو جیسے آئینہء خواب ٹوٹ جائے نہ اِک یہی احتمال ہو جیسے تیری میری انا کی ہٹ دھرمی چاہتوں کا زوال ہو جیسے اِس زمیں کی شکستہ حالی میں آسمانوں کی چال ہو جیسے جِن سے مِل کر قرار ملتا ہے اُن سے مِلنا محال ہو جیسے ایسے لگتا ہے تیرے جانے کا ہر کسی کو ملال ہو جیسے کارزارِ حیات میں ساحل اب تو جِینا وبال ہو جیسے