چنددن قبل نیشنل احتساب بیورو نے پنجاب یورنیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکڑ مجاہد کامران اور چند دیگر پروفیسروں کو غبن اور 550 بھرتیوں کے الزام پر گرفتار کیا ۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا کہ جس نے جرم کیا چاہے وہ کوئی بھی ہو اسے جوابدہ ہونا چاہیے لیکن جب انہی بوڑھے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگاکر کسی عادی خطرناک مجرم کی طرح عدالت میں پیش کیا گیا ، وہ منظر کسی صورت بھی ایک مجھ جیسے طالب علم کے لیے بھی قابل قبول نہ تھا کیونکہ اساتذہ کی عزت و تکریم بہر صورت پیش نظر رکھنا ضروری تھی۔ وہ بوڑھے اساتذہ جنہوں نے اپنی ساری زندگی تحصیل علم کے متلاشیوں کوزیور علم سے آراستہ کرتے گزاری۔ یہی نہیں بل کہ انہیںجرائم سے اجتناب اور اسکے بھیانک انجام سے آگاہ کیا اور پڑھایاکہ جرم وہ ناسور ہے جو نسلیں تباہ کر دیتا ہے۔اساتذہ کو نیب کے ایک افسر کا تضحیک آمیز اور بغض و عناد سے ہتھکڑیوں میں جکڑنا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ مذکورہ افسر علم روشنی سے منور نہ تھا اگر ہوتا تو اسے بخوبی آگاہی ہوتی جو بابا بلھے شاہ فرما گئے ہیں۔”عِلم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لینا علمے وڑ کے ہُو”۔سوچیے وہ کیا بھیانک اور وحشت ناک گھڑی ہو گی جب ان اساتذہ نے ہتھکڑی پہنی ہو گی اور کیا سوچا ہو گا کہ ہماری برسوں کی ریاضیت خاک پنہاں ہو گئی؟ اندر سے وہ کیسے ٹوٹ کر بکھرے ہو نگے اور کہتے ہونگے کہ یہ سب پہننے سے پہلے انہیں موت کیوں نہ آگئی۔
الیکڑانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اساتذہ کے ساتھ ناروا سلوک پر جب آواز اُٹھی تو ہر طبقہ فکر نے اس غیر روائتی عمل کی مذمت کی اور نیب کے چیرمین سے نوٹس لینے کی اپیل کی جس پر انکوائری کے بعد ایک افسر کو معطل کر دیا گیا اور یوںیہ واقعہ قصّہ پَارینہ بن گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن اساتذہ کی ہتک اور جگ ہنسائی ہوئی کیا وہ اس معاشرے میںبغض و عناد رکھنے والے زیور علم سے بے بہرہ افسران واپس دلا سکتے ہیں؟ جواب یقینا نہیں میں ہے۔ ایک طرف اس ملک میںجب کسی الزام میں قید سیاست دانوں اوربیوروکریٹس کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو بنا ہتھکڑیوں کے لیکن دوسری طرف بوڑھے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کرعزریہ پیش کیا گیا کہ ان کے بھاگنے کا ڈر تھا۔بند کر دیں یہ ڈرامے بازی اور دوہرا معیار۔
دُنیا کے سب سے بڑے عالم و استاد ہمارے پیارے نبی اکرم ۖ ہیں جنکی تعلیمات رہتی دنیا تک کے لیے رُشد و ہدایت کا منبع ہیں اور اساتذہ کی عزت و وقار ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں وزراء و سینٹرز کے بعد اگر کسی کو مقام فضیلت حاصل ہے تو وہ اساتذہ ہیں ۔ معروف دانشور اشفاق احمدنے بھی اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ جب وہ فرانس میں اپنے ٹریفک چالان کو بھرنے گئے تو جب جج نے پیشہ پوچھا تو بتلایا گیا کہ وہ پڑھاتے ہیں تو جج اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ Teacher in the court?۔ اور فوراً چالان خارج کر دیا۔ اسی طرح ایک بار ملکہ برطانیہ اپنے سکواڈ کے ساتھ ایک سڑک سے گزر رہی تھیں کہ ایک ٹریفک سگنل پر سارجنٹ نے ملکہ کا قافلہ روک دیا۔ جب سکواڈ نے وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ دس بجے پروفیسر برکلے روڑ کراس کرکے سامنے شاپ پر کافی پینے جاتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ لیٹ ہو ں یا انہیں تکلیف ہو۔یہ بات جب ملکہ کو بتائی گئی تو ملکہ نے سارجنٹ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے پروفیسر کے گزرنے کا انتظار کیا۔
علم کھوجنے کے لیے کسی بھی شاگرد کا با ادب ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک محاورہ ہے”باادب با مراد ، بے ادب بے مراد”۔ اساتذہ کی عزت و احترام اگر دیکھنا ہے تو کسی بھی مدرسے چلے جائیں جہاں استادکی غیر حاضری میں مجال ہے کہ کوئی دوسرا اس استاد کی جگہ بھی بیٹھے۔ استاد کی کرسی خالی ہی رہے گی۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ استاد کو اپنے مضمون پر دسترس نہیں۔ کوئی شوق سے استاد بنتا نہیں بلکہ اکثریت حادثاتی ہے۔ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ڈاکٹر یا انجینئر بنے ۔جو طالب علم یا طالبہ رہ جائے تو وہ عمر ایج سے بچنے کے لیے استاد بھرتی ہو جاتے ہیں۔جو صرف وقت گزاری کے لیے ٹیچر بنتے ہیںنہ کہ بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے۔وقت گزاری کی رہی سہی کسر سمارٹ موبائل اور سوشل میڈیا نے پوری کردی جسکی بدولت ہر ٹیچر کلاسوں میں طلباء کو پڑھانے کے بجائے موبائلوں پر مصروف رہتے ہیں اور اگر کوئی طالب علم سوال کرنے کی جسارت کرتا ہے تو اسے خاموش کر دیا جاتا ہے۔
ملک میں سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ بے شمار پرائیویٹ سکول چینیں کام کر رہی ہیں جنکی بھاری بھرکم فیسوں سے عاجز آئے والدین نے عدالتوں کے دروازے کھٹکٹائے اور معاملہ چلتے چلتے سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے جسکی سماعت آج کل جاری ہے۔اسلام آباد کے گیٹ وے روات میں نیشنل فائونڈیشن فار ریسورس ڈویلپمنٹ(این ایف آر ڈی) کا ایک خوبصورت اور وسیع عریض سکول و کالج واقع ہے جس کا اب بظاہر آرمی پبلک سکول اینڈ کالج سے الحاق کر دیا گیا ہے۔ اہل علاقہ کا سعادت حسن منٹو کے مشہورافسانے “نیاء قانون1935 ” کے کردار استاد منگو کوچوان کی طرح گمان یہی تھا کہ یہاں اہل علاقہ کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت کے مواقع میسر ہونگے اور انکے بچے بھی ملک کے دیگر سکولوں کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کر پائیں گے لیکن ۔۔۔۔۔۔ یہ خواب خواب ہی شاید رہیں۔ایک متوسط فیملی نے گھر کے قریب اے پی ایس سکول ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو اس سکول میں داخل کروایا لیکن ان والدین کی امیدوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب سکول میں اساتذہ اور پرنسپل آئے روز تبدیل ہونے کی اطلاعات آنے لگیں۔ آئے روز ٹیچرز کی تبدیلی بوجہ کم تنخواہ و نظم و ضبط کا فقدان بچوں کے مستقبل کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ اگر کسی طالب علم نے کلاس میں کوئی سوال پوچھ لیا تو ٹیچرکاکام بنتا ہے کہ وہ جواب دے یا اگر جواب فی الوقت آمد نہیں تو موخر کرے لیکن طالب علم سے بَیر رکھ لینا کہ اس نے سوال کرنے کی جراّت کیسے کی قطعاً قابل قبول رویہ نہیں۔عجیب و غریب احکامات بچوں اور والدین کے لیے وبال جان بن گئے۔ حد یہ ہو گئی کہ بچوں کی شرارتوں کی وڈیوٹیچرز بنا کر پرنسپل کو بھجوائی جائیں، اگر والدین پرنسپل سے شکایت کرنے آئیں اور پرنسپل اکیلے گھنٹوںخوبرو دوشیزائوں سے خوش گپیوں میں محو ہو اور کہا جائے کہ صاحب میٹنگ میں ہیںیہ کس ٹیچر اور سکول کو زیب دیتا ہے۔بدانتظامی کی انتہا یہ ہے کہ کئی پرنسپل آئے اور فارغ کر دیئے گئے لیکن اُونٹ کی طرح اس سکول کی کوئی کَل سیدھی نہیں ہوئی۔ مجبوراً متاثرہ والدین نے اپنے بچوں کو اس سکول سے نکلوا کر دَم لیا۔
ٹیچنگ اور لرننگ بڑا پُراسرار کام ہے۔ اگر آپ استاد ہیں تو اپنے کسی طالب علم کو بیوقوف یا نالائق نہ سمجھیں۔ اگر استاد کی حُرمت کی خاطر میرا دل تڑپتا ہے تو استاد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی عزت و وقار کے بھرم کو قائم رکھے۔ بات وہی پرانی ہے کِسے روئیں کسے نہ روئیں۔آئوے کا آواہ ہی بگڑا ہوا ہے۔