25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ملک میں کئی اہم اور بڑے واقعات ہو چکے ہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کرپشن کے الزامات میں ایک وزیراعظم وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد جیل میں سزا کاٹ رہا ہے سابق سزایافتہ وزیراعظم میاں نوازشریف اپنی بیٹی اور داماد سمیت کرپشن کیس نہ صرف اب عملی طور پر سزا کاٹ رہے ہیں بلکہ وہ بڑی حد تک الیکشن کے عمل سے باہر ہیں اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کئی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی قیادت میں الیکشن لڑرہی ہے اب عدلیہ کے فیصلے کے بعد میاں نوز شریف اور ان کی پارٹی کا معاملہ عوام کی عدالت میں ہے کہ الیکشن میں وہ کیا فیصلہ دیتے ہیںملک کے عوام کرپشن کیخلاف احتساب کے عمل کو یقینی طور پر پسند کرتے ہیں یہ اچھی بات ہے کہ ماضی میں کرپشن کرکے ملک کی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے ا س کے لیے عدلیہ اور احتساب کے اداروں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے کاروائی کرکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے یہ کیس ملک کی تقریخ میں کرپشن کیخلاف ایک حوالہ بن سکتا ہے یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو ملک سے کرپشن ختم کرکے کرپشن فری پاکستان بنانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن یہ ایک حقیت ہے کرپشن میں ملوث سینکڑوں لوگوں میں سے ابھی تک صرف میاں نوازشریف کے خلاف ہی اتنی بڑی کاروائی ہوئی ہے جب کہ کرپشن میں ملوث بہت زیادہ لوگ مختلف پارٹیوں کی طرف سے الیکشن بھی لڑرہے ہیں احتساب کا یہ عمل بلاتفریق اور بلاامتیاز تمام کرپٹ لوگوں کیخلاف ہوتا تو زیادہ قابل تعریف اور معتبر ہوتا لیکن اگر کرپشن میں ملوث دیگر سینکڑوں لوگوں کو چھوڑ کر صرف میاں نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کیخلاف ہی احتساب ہوتا ہے تو پھر لوگوں کے ذہنوںمیں سوال اٹھیں گے۔
عدلیہ اوراحتساب کے ادارے اس جانب بھی توجہ دیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس کے ذریعے دیامیربھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم دے دیا ہے حالانکہ یہ کام عدلیہ کے کرنے کا نہیں لیکن جب متعلقہ ادارے اور ذمہ دار لوگ اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تو کسی کو تو یہ کام کرنا ہی ہے سو قومی اہمیت کے اس اہم کام کو کرنے کا بیڑہ عدلیہ نے اٹھایا ہے جس کا عوام نے زبردست خیرمقدم کیا ہے۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے لیے ڈیم بنانے نہایت ضروری ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے اس اہم قومی مسئلے پر توجہ نہیں دی ماضی میں کئی ڈیم بنانے کے منصوبے بنائے گئے لیکن یہ سب کاغذی کاروائیوں تک محدود رہے کالاباغ ڈیم جیسے اہم اور بہترین منصوبے کے علاوہ ایسے دیگر کئی منصوبوں کو سیاست کی نذر کردیا گیاآخرکار اللہ تعالیٰ کو ہماری حالت پر رحم آیا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے ایک ازخود نوٹس کے ذریعے دیامیربھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم دے دیا حالانکہ یہ کام حکومت کے کرنے کا تھا لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں کو ملکی مفاد کے کام کرنے کی توفیق ہی نصیب نہیں ہوتی انھوں نے اقتدار کو اپنے مفادات پورے کرنے اور دولت اکٹھی کرنے کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے۔
حالانکہ پانی کا مسئلہ ملک کے اہم ترین مسئلوں میں سے ایک ہے اس کی اہمیت ہر گذرتے دن کیساتھ بڑھتی جارہی ہے اگر ملک میں ڈیم نہیں بنتے تو اگلے چند سالوں میں وطن عزیز کو پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہماری زراعت تباہ ہوسکتی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ڈیمز کو سیاسی مسئلہ بنائے رکھالیکن اللہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کا بھلا کرے جنھیںاس چیز کا احسا س ہوا اور نھوں نے ڈیمز کی تعمیر کا ایک بڑا انقلابی قدم اٹھایا ہے اس کے لیے ا نھوں نے بہت سارے ٹھوس عملی اقدامات کرتے ہوئے باقاعدہ فنڈز قائم کردیا ہے جس میں سب سے پہلے جناب چیف جسٹس صاحب نے اپنی جیب خاص سے دس لاکھ روپے جمع کرائے ہیں اور عوام بھی اس میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیںان ڈیمز کے تمام معاملات کی نگرانی عدلیہ کرے گی اور اس فنڈ کا باقاعدہ آڈٹ ہوگاجس سے عوام کو آگاہ رکھا جائے گا امید ہے کہ اب یہ ڈیمز انشاء اللہ مکمل ہونگے۔
اس کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو اپنی توفیق کیمطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے یہ ایک قومی فرض کیساتھ صدقہ جاریہ بھی ہے میں اس کالم کے ذریعے اپنے لیے کارثواب سمجھتے ہوئے پوری قوم سے اپیل کرتا ہوںکہ وہ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کے لیے قائم فنڈ میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالیں اس کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے موبائل سےdam لکھ کر 8000 پر میسج کریں جس سے ڈیمزفنڈز میں آپ کے موبائل بیلنس سے دس روپے جمع ہوجائیں گے عام آدمی کے لیے یہ بڑا آسان اور سادہ طریقہ ہے جس کے ذریعے اس فنڈ میں کم سے کم رقم جمع کرائی جاسکتی ہے پاکستانی ایک زندہ قوم ہیں۔ جو حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہیں انشاء اللہ ڈیمز کی تعمیرکے لیے اتنے زیادہ فنڈز جمع ہونگے جو ان ڈیمز بنانے کے اخراجات سے بھی بہت زیادہ ہونگے۔ماضی میں عوام کو وزیراعظم کے قائم کردہ قرض اتارو فنڈ میں عطیات جمع کرانے کا تلخ تجربہ ہواتھا کہ اس فنڈ میں جمع کیے گئے اربوں روپوئوں کو کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئے لیکن اس کے برعکس اپنی عدلیہ پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں انھیں امید ہے کہ اس فنڈ میں جمع کرائے گئے عطیات سے ڈیم ضرور بنیں گے جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہونگے۔