احتساب پر 22 لاکھ خاندان خاموش کیوں۔۔؟

Accountability

Accountability

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ

انصاف پر مبنی احتساب کسی بھی جمہوری ملک اور ملکی اداروں کی طاقت کا باعث بنتا ہے۔ ایسا احتساب عوام کے انصاف مہیا کرنے والے اداروں پر اعتماد میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ انصاف پر مبنی احتسابی نظام نہ صرف اہل اور اچھی شہرت کے حامل افراد کو سیاست کے میدان میں سامنے لاتا ہے بلکہ لوگوں میں پبلک سروس کے شعبے میں آنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نظام ہائی جیک ہو چکا ہے، سویلین بالادستی کی منزل ابھی بہت دور ہے اور یہ تب تک ممکن نہیں ہوگا جب تک عوام اپنے آئینی حقوق کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے۔ ان کے خیال میں جب تک جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتیں مصالحت ترک کر کے آگے نہیں بڑھیں، ریاست کا بنیادی کردار اور سول ملٹری عدم توازن ٹھیک نہیں ہو گا۔

لیکن یہ سب باتیں باتیں ہی رہیں، حالات بدتر سے بد تر ہو گئے۔ مُلک میں تاجروں کی ہڑتال، مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ، ہسپتال بند ڈاکٹرز سراپا احتجاج۔ لیکن حکمرانوں کی نہ تو تقریر بدلی اور نہ ہی سیاست کا طریقہ، تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی احتساب کا نعرہ لگایا اور اس بات میں کوئی شک نہیں احتساب جمہوریت کا لازمی جزو ہے، عوام میں عمران خان کا احتساب کا نعرہ بہت مقبول ہوا اور عوام نے بھرپور ساتھ بھی دیا لیکن خان صا حب احتساب میں اتنا آگے نکل گئے کہ اُسی عوام کو احتساب انتقام لگنے لگ گیا اور اُس انتقام کے نتیجے میں ریاست پاکستان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے یہاں بدقسمتی سے آزادی کے فورا بعد احتساب کو مضموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ انصاف مہیا کرنے والے ادارے انتظامیہ کے اشاروں پر ناچتے ہوئے قابل اور دیانتدار سیاستدانوں کو نااہل قرار دیتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ حسین شہید سہروردی جیسے اہل اور صاف و شفاف شہرت رکھنے والے سیاستدان کو بھی ایبڈو قانون کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔ اندیشہ ہے کہ اگر قائد اعظم زیادہ عرصہ حیات رہتے تو انصاف کے اداروں اور انتظامیہ کا یہ گٹھ جوڑ خدانخواستہ شاید انہیں بھی نااہل قرار دیتا۔

بہرحال ان کی بہن ان گندے انڈوں کے وار سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہنے میں ان لوگوں کو کوئی عار محسوس نہیں ہوئی۔ یہ قانون اور اخلاق سے عاری احتسابی نظام، سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد ختم کرنے کے لیے وجود میں لایا گیا۔ اس کی مدد سے سیاستدانوں کی ایک نئی پود کا آغاز کیا گیا جو کہ انتظامیہ کی پیداوار تھی اور خوشی سے انہیں کے اشاروں پر ناچتی رہی۔دوسری جانب حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے یہ بھی بیانات سامنے آرہے کہ موجودہ احتساب کا م نظام (نیب)مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور نہ ہی وہ غیرجانبدار رہے ہیں۔ ان کی موجودگی سے احتساب کا عمل مزید بدنام ہوگا اور جو لوگ واقعی کرپشن میں ملوث رہے ہیں اور سزا بھی پا چکے ہیں انہیں بھی یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ وہ بھی سیاسی انتقام کا شکار ہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غریب طبقات میں بھی کرپٹ لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کی کرپشن اربوں کھربوں میں ہوتی ہے نہ ارتکاز زر کا ذریعہ بنتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے اور محکمہ پولیس کے لوگوں کو عام آدمی کے چھوٹے موٹے کام کرنے یا کرانے کا موقع ملتا ہے جس کا وہ سو پچاس ہزار دو ہزار معاوضہ یا رشوت لیتے ہیں لیکن یہ رشوت نہ کروڑوں میں ہوتی ہے نہ اربوں میں بس اتنی ہوتی ہے کہ گھر کا کام چلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے پاکستان کے چھ کروڑ مزدور اور دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں کو سارا دن روٹی کے لیے محنت کرنا پڑتا ہے انھیں کرپشن کا نہ وقت ملتا ہے نہ موقع۔بتایا جاتاہے کہ محکمہ کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی سرکاری ملازمین کے سائبان کا محافظ ہے،آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (ایپکا) میں شامل تقریباً 22لاکھ افراد ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ احتساب کے عمل میں یہ افراد خاموش ہیں۔ کیونکہ بے شمار ملازمین ایسے ہیں جن کے ساتھ ان کے اپنے ہی دوست ملازمین ظلم کی انتہاکررہے ہیں۔بے شمار ایماندار ملازمین اپنے حقوق کے لئے رل گئے ہیں۔ لیکن کرپٹ ترین ملازمین آج بھی ان 22لاکھ افرادکی خاموشی سے قوم وملک اور محکمہ کی بدنام کا باعث بن رہے ہیں۔جس طر ح محکمہ کوآپر ٹیوسوسائٹی پنجاب کا لاہور میں تعینات سنیئر کلرک لطیف خان حکومت وقت سمیت محکمہ کوآپر ئٹوہاؤسنگ سوسائٹی کے لئے ایک چیلنج ہے۔ خبر یہ ہے کہ لطیف خان بھی محکمہ کوآپرٹیو سوسائٹی پنجاب لاہورکے احکام کے لئے ایک حریم شاہ جیسا کردار ہے۔اگر تحقیقات شروع ہوگئیں تو کئی افسر اس کی زد میں آجائیں گے۔

نیب کمیٹی نے محکمہ کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی اسلام آباد آئی سی ٹی کی کارکردگی موثر بنانے اور ہاوسنگ سوسائٹیوں میں بدعنوانی کی روک تھام کیلئے متعدد تجاویز پیش کر دیں۔تین مارچ 2017ء کے نوٹیفکیشن کے مطابق کوآپریٹو کمیٹیوں کے ایکٹ 1925 کی دفعہ 44ای اور 44ڈی کے تحت ان سفارشات پرعملدرآمد کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ہر کوآپریٹوسوسائٹی یریونیشن کمیٹی سے رابطہ کیلئے فوکل پرسن تعینات کرے گی جوان سفارشات پرعملدرآمد میں کوتاہی پرذاتی طورپر ذمہ دار ہوں گا فوکل پرسن ہفتہ وار بنیادوں پرسرکل رجسٹرارمحکمہ کوآپریٹوسوسائٹیز اسلام آباد کو پیشرفت سے آگاہ کرے گا شکایت کی صورت میں سوسائٹی قانون کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہو گی۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ