مشہور لطیفہ ہے کہ ”ایک مرتبہ ملا نصرالدین کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی۔ مگر ملا اس خطبہ کے لیے دل سے راضی نہیں تھے۔ خیر، ممبر پہ کھڑے ہوکر ملا نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا“ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے خطبہ میں کیا کہنے والا ہوں؟“ لوگوں نے جواب دیا“نہیں“۔ ملا نے کہا“میں ان لوگوں سے خطاب کرنا نہیں چاہتا، جو یہ تک نہیں جانتے کہ میں کیا کہنے والا ہوں“، یہ کہتے ہوئے ملا وہاں سے رخصت ہو گئے۔
لوگ تعجب میں پڑ گئے، دوسرے ہفتہ پھر ملا کو خطبہ کے لیے طلب کیا گیا۔ اس مرتبہ ملا منبر پر کھڑے ہوکر پھر یہی سوال کیا، تو لوگوں جواب میں“ہاں“ کہا۔ نصرالدین نے کہا“اچھا، تو آپ جانتے ہیں کہ میں کیا کہنے والا ہوں، تو میں میرا قیمتی وقت برباد کرنا نہیں چاہتا“ اور پھر نکل پڑے۔
اس بار لوگ تذبذب میں پڑ گئے اور فیصلہ کیا کہ ملا کے پھرسے خطبہ کے لیے مدعوکیا جائے۔ تیسرے ہفتے ملا پھر تشریف لائے، حذب مطابق وہی سوال پوچھا۔ اس بار لوگ تیار تھے کہ جواب میں کیا کہناہے، نصف لوگوں نے کہا“ہاں“ تو بقیہ لوگوں نے“نہیں“ کہا“وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ میں کیا کہنے والا ہوں، بقیہ لوگوں کو بتادیں“ یہ کہہ کر لوٹ گئے۔“
پاکستان کو درپیش مسائل سے تو آپ سب واقف ہی ہیں لیکن دیگر اہم مسئلوں کی طرح ایک اہم مسئلہ کرپشن بھی ہے یا یوں کہیں کہ دہشتگردی کے بعد دوسرا بڑا اور اہم ترین مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج ممکن ہے مگر پاکستان میں اسے لاعلاج سمجھا جاتا ہے۔سیاسی رہنما کرپشن کے خلاف تقریریں تو کرتے ہیں لیکن کرپشن کی وجوہات پر بات نہیں کرتے اور نا ہی اس کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرتے ہیں۔
قومی خود مختاری کو درپیش چیلنج، ملکی سرحدات کی پامالی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خوفناک لوڈشیڈنگ سمیت کسی بھی قومی مسئلہ اور بحران کا تجزیہ کریں تو اس کے پیچھے چند افراد کی کرپشن، مفاد پرستی اور بدعنوانی کارفرما دکھائی دے گی اور اس طرح نیچے سے اوپر تک ہر سطح پر ہمیں اپنے ملک میں کرپشن ہی کی حکمرانی اور بالا دستی کا سامنا ہے جو دیمک قومی معیشت کے ڈھانچے کو مسلسل چاٹ رہی ہے۔تمام ایسے ممالک، جہاں آپ کو کم کرپشن نظر آتی ہے، یہ وہ ممالک ہیں، جہاں جمہوری نظام اور ادارے مضبوط اور فعال ہیں، جہاں قانون کا بول بالا ہے اور جہاں دستور کی حکم رانی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بدعنوانی کسی وبا کی طرح ملک کی جڑوں پر وار کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ گھر میں نوکرانی رکھی جائے، تو اس پر الگ سے نظر رکھنا پڑتی ہے کہ کہیں گھر سے قیمتی سامان یا زیورات نہ چرا لے۔ چوکیدار رکھیں، تو وہ پیسے لے کر ڈاکوؤں سے مل جاتا ہے، ڈرائیور رکھیں، تو وہ پیٹرول کے پیسے چرا لیتا ہے، وکیل لیں، تو وہ مخالف پارٹی سے پیسے پکڑ کر مقدمہ ہرا دیتا ہے،وغیر ہ وغیرہ۔صحافتی آزادی کے اعتبار سے پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے اور دنیا میں کام کے دوران صحافیوں کے قتل کے اعتبار سے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں آگے آگے ہے۔ تاہم اس پر کبھی ہمارے ہاں بات نہیں ہوتی۔
جب بات کی جاتی ہے ”احتساب کے ترازو کی تو قوم کے لئے امید کی کرن جنم لیتی ہے“ قومی احتساب بیورو نے پاکستان سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا ہے، تمام سارک ممالک میں نیب ایک رول ماڈل ادارہ ہے، نیب کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان بدعنوانی کے تاثرکے حوالے سے اعشاریے سی پی آئی میں 175 سے 116 ویں نمبر پرآگیا ہے۔ نیب نے نوجوانوں کو بدعنوانی کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کیلئے ملک بھر میں کردار سازی کی 55 ہزار سے زائد انجمنیں قائم کی ہیں، نیب کی کارکردگی ملک کے کسی بھی انسداد بدعنوانی کے ادارے کے مقابلے میں شاندار ہے، نیب کی 2018ء سے 2019ء کے اس عرصہ کے مقابلہ میں شکایات انکوائریوں اور انوسٹی گیشن کی تعداد دوگنا ہے جو کہ نیب کی احتساب سب کیلئے بلاامتیاز پالیسی پر اعتماد کا اظہار ہے۔بزرگ کہتے ہیں کہ سیاست دان اپنے آپ کو قانون اور احتساب سے بالاتر سمجھتے ہوئے ہر بار ”ملا نصرالدین“ کے لطیفے کا سہارا لے کرعوامی احتساب سے بھاگ جاتے ہیں۔لیکن اس بار صورت میں بہت تبدیلی آرہی ہے۔
دوسری جانب ایسی ہی صورت حال پنجاب کے کئی محکموں میں بھی ہے سب سے پہلے مال، ریونیواورمحکمہ کوآپر ٹیوپنجاب سوسائٹی ہے۔محکمہ کوآپرٹیوپنجاب سوسائٹی کے افسروں تو باکمال لوگ ہیں جو ایک کر پٹ ترین سنیئر کلرک کو بچانے کے لئے متحد ہوچکے ہیں وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت دیگر افسروں بے بس ہیں یہاں تک کے افسروں کا کہنا ہے کہ محکمہ کوآپر ٹیوپنجاب کی نجکاری کردیں۔لیکن سنیئر کلرک لطیف خان کے خلاف کاروائی نہیں چاہتے۔لطیف خان کی جانب سے صحافیوں کو قتل جیسے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔اور کیس بھی دائر کیے جائے چکے ہیں۔
سیکرٹری کوآپرٹیوپنجاب سمیت تمام افسران خاموش ہیں۔ کرپٹ ترین کلرک کاکیس حکومت وقت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔اگر یہی صورت حال رہی تو ماضی کی طرح کرپشن میں اضافے کے نکتے کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے ناقدین سوشل میڈیا پر‘کرپٹ نیا پاکستان‘ کا پھر ٹرینڈ شروع کر دیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت احتساب کا ترازوقائم رکھتے ہوئے قوم کے لئے امید کی کرن ختم نہ ہوتے دے۔حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو سخت سزا دے۔