پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 100 دن بڑی تیزی کیساتھ گذر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر کارگردگی سامنے نہیں آئی سوائے اس کے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے بھرپور عزم کیساتھ کرپشن کیخلاف محاذ جنگ پر ڈٹے ہوئے ہیں بیشمار روکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرکے کرپشن فری پاکستان بنانے کے نعرے اور وعدے پر پوری طرح قائم ہیں جس کا وہ کئی مرتبہ اظہار کرچکے ہیں کہ وہ قومی دولت لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے ملک میں مسائل کا انبار ہے جنھیں حل کرنے کے لیے کافی وقت چاہیے70 سالوں کی خرابیاں درست کرنا اور گند صاف کرنا چند مہینوں میں مشکل ہی نہیںبلکہ ناممکن ہے ان تمام خرابیوں اور برائیوں کی جڑ کرپشن ہے جس کے خلاف کاروائی کیے بغیر کوئی بہتری نہیں آسکتی وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ کرپشن ختم کرنے کے اپنے عہد اور وعدے پر قائم ہیں جس کے لیے عدلیہ کے علاوہ نیب،ایف آئی اے، ایف بی آر ،سٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ ادارے کرپشن کیخلاف کاروائیوں میں تیزی کیساتھ سرگرم عمل ہیں سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے قریبی دوست انور مجید آف اومنی گروپ منی لانڈرنگ کے الزامات میں زیرحراست ہیں اس کیس کے ذریعے کرپشن کیخلاف بڑی پیشرفت کا امکان ہے۔
کرپشن کیخلاف کاروائیوں میں ہی سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف جو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں وہ بھی کرپشن کے الزام میں نیب کی حراست میں ہیں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کیخلاف بھی کرپشن ریفرنس زیرسماعت ہے اس طرح کی اور بھی بڑی کاروائیاں جلد متوقع ہیں جو اس سے پہلے پاکستان میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں کرپشن میں ملوث لوگ بڑے بااثر اور طاقتور ہیں ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنا اور انھیں پکڑنا آسان کام نہیں ماضی میںادارے ان کے سامنے بے بس نظر آتے تھے اب نئی حکومت کرپشن کیخلاف طاقتور لوگوں کیخلاف کچھ کرنے جارہی ہے تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جس کے نتائج اور اثرات سامنے آنے میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ عمران خان نے کرپشن کیخلاف ایک بڑی خوفناک چھیڑی ہے جس میں انھیںبڑے طاقتور حریفوں کا سامنا ہے جو گذشتہ ستر سالوں سے اقتدار میں رہے ہیں ان کے وفادار لوگ اب بھی اداروں میں موجود ہیں جو نہ صرف کرپشن میں ملوث اپنے سابق آقائوں کیخلاف کاروائیوں میں روکاوٹ ہیں بلکہ نھیں کئی طرح سے تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہیں اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کرنے اور کرپشن ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں کیونکہ عمران خان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کرپشن ختم کرنے میں ہی پی ٹی آئی کی بقا ہے جس کے لیے کرپشن کنگز حکومت کیخلاف متحد ہو رہے ہیں۔
تاکہ ماضی میں قومی دولت لوٹنے والوں کیخلاف احتساب کے عمل کو روکا جاسکے لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ اب وزیراعظم کے ویژن کیمطابق نیب، ایف آئی اے، سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور دیگر متعلقہ قومی ادارے کرپشن کیخلاف کاروائیوں کے لیے متحرک ہیں جبکہ اعلیٰ عدلیہ پہلے ہی کرپشن کیخلاف اور ملک میں قانون کی عملداری کے لیے سرگرم عمل ہے گو ابھی کچھ عناصر اس عمل میں روڑے اٹکا رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر محسوس ہورہا ہے کہ کرپشن کیخلاف کچھ ہونے جا رہا ہے احتساب کے اداروں نے غیرقانونی طریقوں سے قومی دولت بیرون ملک بھیجنے،بے نامی جائدادوں،بینک اکائونٹس،آمدن سے زائد اثاثے بنانے والوں کا سراغ لگا لیا ہے اور ان کی لسٹیں تیار کر لی ہیں جس کے نتیجے میں جلد ہی کرپشن کرنے والے کئی بڑے طاقتور لوگ بھی قانون کے شکنجے میں آئیں گے جب تک ایسا نہیں ہوگا حکومت کو کئی طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا رہے گا لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جس دن حکومت چند بڑے مگرمچھوں کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گئی اسی دن کرپٹ لوگوں کی کمر ٹوٹ جائے گی اس کیساتھ ہی نہ صرف حکومت کی مشکلات کم ہونا شروع ہوجائیں گی بلکہ مستقبل میں اسے بڑی کامیابیاں اور آسانیاں حاصل ہو نگی اس سے پہلے حکومت کو کئی دشواریوں اور مشکلات کا سامنا رہے گا۔
کیونکہ قومی دولت لوٹنے والے اور کرپشن کرنے والے طاقتور لوگ قانون سے بچنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے دیکھا جا رہا ہے کہ حکومت کی پہلے 100 دنوں کی کارگردگی سامنے آنے سے پہلے ہی اپوزیشن حکومت کیخلاف متحد ہونے کے لیے سرگرم ہے ان کا مطلب تو یہی ہے کہ حکومت احتساب کرکے کرپشن کیخلاف کاروائیاں کیوں کرہی ہے دلچسپ بات یہ ہے اپوزیشن کے اتحاد کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کی بجائے مولانا فضل الرحمان بہت زیادہ سرگرم ہیں جو ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمینی کی مراعات اور مزے لوٹتے رہے لیکن ایک دفعہ بھی اپنی زبان پر کشمیر کا نام نہیں لائے انھیں عام انتخابات میں شکست ہوئی تو موصوف نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ نومنتحب اراکین اسمبلی حلف نہ اٹھائیں جسے کسی نے بھی نہیں ماناتو کچھ دنوں بعد مولانا انہی سمبلیوں کے ممبران سے ووٹ حاصل کر کے صدر بننے میں ناکام ہوئے اب یہی مولانا فضل الرحمان حکومت کیخلاف اپوزیشن اتحاد بنانے میں سرگرم ہیں جس کے لیے وہ بڑی جانفشانی کیساتھ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان رابطہ کاری کررہے ہیں حالانکہ اپوزیشن کی یہ دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیںچند دن پہلے تک آسف زرداری کہتے رہے کہ ان پر مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں میاں نوازشریف نے مقدمات قائم کیے تھے محسوس ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے ذاتی خواہش کا اپوزیشن اتحادکا مشن بھی ناکام ہوگا۔
کیونکہ میاں نوازشریف اے پی سی میں شامل ہونے کے لیے رضامند نظر نہیں آتے کیونکہ وہ سمجھتے میں پیپلزپارٹی نے ماضی میں ان کا ساتھ نہیں دیا خاص طور پر جب انھیں وزارت عظمیٰ سے نااہل کیا گیا تھا اور حال ہی میں وزیراعظم، صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے موقع پر بھی پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کی کھل کر مخالفت کی تھی اب آصف زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے تو انھوں نے اپنے مفاد کے لیے مولانا فضل الرحمان کے ذریعے اپوزیشن اتحاد کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں لیکن صاف طور پر کھل کر یہ نہیں بتا رہے کہ انھیں حکومت سے کیا مسئلہ ہے اس چیز کوپوری دنیا اورملک کے عوام بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ کرپشن اور احتساب سے بچنے کے لیے کیاجارہا ہے ورنہ اپوزیشن کو حکومت کیخلاف محاذ قائم کرنے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں بھی اس بات بخوبی آگاہ ہیں کہ اپوزیشن اتحاد کے لیے ان کے پاس کوئی ا جتماعی ایجنڈہ کوئی نہیں ہے یہ اتحاد اپنے اپنے مفاد اورتحفظ کے لیے ہے اس میں ملک اور جمہوریت کا کوئی مفاد نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ سردست مولانا فضل الرحمان کی اپوزیشن کو متحد کرنے کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی عوام چاہتے ہیں کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو اور لوٹی گئی قومی دولت واپس لائی جائے اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو پانچ سال تک چلنے دیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی سامنے آسکے یہی جمہوریت کا تقاضا ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے۔