تحریر : رانا اعجازحسین سرزمین پاکستان بے شمار انمول قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک نت نئے بحرانوں، معاشی تنزلی اور انحطاط کا شکار ہے ۔ اور قرضے میں ڈوبے عوام پاکستان بھوک و افلاس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔یہاں نا اہل حکمرانوں کی عیاشیوں ، کرپشن، بد عنوانی اور سفارش کے کلچر نے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ملک کے ہر ہر شعبہ میں بدعنوان لوگوں کی بھرمار نظر آتی ہے، اگر کچھ نظر نہیں آتا تو حکمرانوں اور کرپشن کرنے والوں کو کچھ نظر نہیں آتا۔ حکمرانوں کی جانب سے کرپشن کے آگے بند باندھنے کی بجائے ،اس کی راہیں مسدود کرنے کی بجائے ہر نئے دور میںان کو مذید وسعت دی گئی ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہونے کے باعث ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ لوگ غربت کے باعث کہیں انفرادی اور کہیں اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ غربت، مہنگائی، بجلی اور گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ ، کرپشن، بدعنوانی ، اقرباء پروری ، سستے اور فوری انصاف سے حصول میں مشکلات نے عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ایسے منصوبوں میں اربوں روپے کی ادائیگیاں کر دی گئیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
آج بھی توانائی منصوبوں میں شفافیت پر میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ویسے تو ملک میں پروان پڑھی کرپشن سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے مگرگزشتہ ماہ پانامہ لیکس نے کئی لوگوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان لوگوں کی کھربوں ڈالرز کی آ ف شور کمپنیاںسب کے سامنے نمایاں کردی ہیں، جوکہ ٹیکس بچانے کیلئے کھولی گئیں تھیں، بعض سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے قومی خزانے کو لوٹ کر بھی آف شور کمپنیاں بنائیں۔ پاناما لیکس سے کچھ لوگوں کی جائز اور ناجائز سرمائے سے بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں اور شروع کئے گئے کاروباروں سے بھی پردہ اٹھا ہے۔ مگر عوام پاکستان کی اکثریت پاناما لیکس کے انکشافات اور پھر اس کے بعد شروع ہونے والی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جنگ سے مایوس نظر آتے ہیں ،اکثر افراد کا کہنا ہے کہ یہاں دودھ کا دھلا کوئی نہیں کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوسکے یاکرپشن کرنے والوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا ئی جاسکے۔ کیونکہ اس سے قبل سوئس بنکوں میں موجود پاکستانیوں کے دو سو ارب کی موجودگی کے انکشاف پر حکومت نے یہ رقوم پاکستان لانے کا اعلان کیا تھا مگر اس پر ہنوز عمل نہیں ہوا جبکہ اب پاکستانیوں کے مزید اثاثے بیرون ممالک موجود ہونے کے انکشافات ہو رہے ہیں جن کی مالیت 2 سو ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔
PPP
مملکت خداداد پاکستان پر 148 ارب ڈالر کے اندرونی و بیرونی قرضے ہیں ان قرضوں کے مقابلے میں زر مبادلہ کے ذخائر صرف 20 ارب ڈالر ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے لئے بھی حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے اقتدار میںآنے سے قبل تک حکومتوں نے جو قرض حاصل کئے تھے ان کی مجموعی مقدار سے زیادہ پانچ سال میں قرض حاصل کیا گیا اور اس کی جاں نشیں مسلم لیگ ن کی حکومت نے محض ڈیڑھ دو سال کے دوران ہی قرضوں کے حصول میں پیپلز پارٹی کے دور کا ریکارڈ توڑ دیا۔ یہ قرض حکومت میںآنے والے لوگ اس ملک میں حاصل کر رہے ہیں جس ملک سے سیاستدان، بیورو کریٹ، تاجر، سرمایہ کار اور دیگر حلقوں کے لوگ کئی سو کھرب ڈالر کا سرمایہ بیرون ملک لے گئے جس میں کالے دھن کی تعداد اور مقدار زیادہ ہے۔ اگر یہ دولت پاکستان میں واپس آجائے تو نہ صرف سارے قرضے ادا ہو جائیں گے بلکہ ملک خوش حال ہو اور غربت و افلاس کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے ۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کرپشن میں حکمرانوں، سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں، بیورو کریٹس اور دیگر با اثر لوگوں کا نام آرہاہے تو پھر احتساب کون کریگا۔ مگر جس طرح ملک میں کرپشن کی رات سیاہ ترین ہوچکی ہے اس سے لگتا ہے کہ اب روشن صبح کا آغاز ہونے کو ہے۔اور پاناما لیکس معاملہ کوئی نہ گل ضرور کھلائے گا، اورملک میں موثر احتساب کا آغاز اور کرپشن و بدعنوانی کا خاتمہ ہوکررہے گا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے ادارے سے کرپٹ لوگوں کے احتساب کا سلسلہ شروع کر کے پورے ملک میں احتساب کے عمل کے آغاز کا پیغام دیا ہے۔ آرمی چیف کے بلا امتیاز احتساب کے بیان کو جمہوری حکومت کے دوران اپنی حیثیت سے تجاوز قرار دیا جا سکتا ہے مگر صدر مملکت ممنون حسین، چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی، چیئرمین نیب کے بلاامتیاز احتساب کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کرپٹ لوگوں کے احتساب کے دن آچکے ہیں ۔ اورتمام ترآئینی ادارے متحد ہوکر قوم کی امنگوں کے عین مطابق ملک میں بلا امتیاز احتساب کا آغاز شروع کررہے ہیں۔ صدر مملکت ممنون حسین اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر شعبہ میں کرپٹ اور بد عنوان عناصر موجود ہیں، جو لوگ بڑے اطمینان سے بیٹھے ہیں، انہیں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ہوشیار ہوجائیں۔ پانامہ لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا ہے۔
Corruption
کرپشن کے میدان مارنے والے اب بچ نہیں سکیں گے۔ کرپشن کرنے والوں کے چہرے منحوس ہوجاتے ہیں، جلد یا بدیر کرپشن کرنے والے ضرور پکڑ میں آنے والے ہیں، کرپٹ لوگوں کو سسٹم سے اکھاڑ پھینکا جائیگا تاکہ پاکستان میں تیزرفتار ترقی کو ممکن بنایا جا سکے، 70ء کی دہائی تک قومی ترقی کا سفر اطمینان بخش تھا، اسکے بعد بدعنوانی نے ترقی کی رفتار روکدی۔ پاکستان میں قابل اور اہل لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن کرپشن اور سفارش کلچر نے کارکردگی کو متاثر کردیا۔ بدعنوان لوگ اب اللہ کی پکڑ میںآنیوالے ہیں، بدعنوانی کے خاتمے کے بھرپور امکانات پیدا ہورہے ہیں،پاکستان ،جلد قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے خوابوں کی تعبیر بن کر ابھرے گا۔” جبکہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بھی عوام سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران بلا امتیاز احتساب کی بات کرتے نظر آتے ہیں ۔
بلاشبہ کرپشن ہی تمام تر بحرانوں، مسائل و دہشت گردی کی جڑ ہے ۔ حکومتی شخصیات کو چاہیے کہ احتساب کے عمل میں روڑے اٹکانے ،اس معاملے کو طول دینے یا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے دیانت داری سے ملک میں بلا امتیاز احتساب کے عمل کا باقائدہ آغا زکریں ، ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے، اور تمام اداروں سے کرپشن اور اقرباء پروری کا خاتمہ یقینی بنایا جائے ۔ کیونکہ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے بغیر کبھی بھی ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ہم دعاگو ہیں کہ پاناما لیکس ہی کی بدولت ملک سے کرپشن کے خاتمے کا آغاز ہوجائے ، اور اس مملکت خداداد کا ہرفرد قرضے اور اس قرضے کے سود سے نجات پاکر خوشحالی کرراہ پرگامزن ہو ۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجازحسین ای میل :ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033