صداقت کا روشن چراغ

Allah

Allah

اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں کروڑ ہا خطیبوں واعظوں ،مفسروں ،محدثوں ، ادیبوں ، مفکروں ،دانشوروں ، قلم کاروں ، شاعروں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ”افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق ” ہونے کا بر ملا اعلان کیا ہے اور اس طرح اُن کی فضیلت کی سچی شہادت علی رئو س الاشہاد ادا کی ہے جب ہم کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں فضائل صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمارت تین بنیادوں اور شہادتوں پر استوار نظر آتی ہے۔

1۔آیات قرآنی 2۔ احادیث ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 3۔ اقوال ِ صحابہ کرام و اہل بیت اطہار و سلف صالحین رضی اللہ عنہم اجمعین خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء میں سے آپ پہلے خلیفہ ہیں ، آپ کا رنگ سفید ، بدن دُبلا ، چہرہ شگفتہ ، آنکھیں روشن اور پیشانی فراخ تھی ،بہترین اخلاق کے مالک تھے ، رحم دل اور نرم خو تھے ہوش و خرد ، عاقبت اندیشی اور بلندی ء فکرو نظر میں اپنی مثال آپ تھے ، امیر المومنین ، امام المتقین ، راس الخلفا ء الراشدین ،بعد الانبیاء با لتحقیق، حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، السابقون الاولون مِن المُہاجرون َ والانصار کی فضیلت پانے والے ، لقد رضی اللہ عنہم کی بشارت سننے والے ، لا تحزن اِ ن اللہ مَعنا َ کے شیریں خطاب سننے والے ثانی اثنین ِ اِذ ھُما َ فی ِالغارکے لقب کا اعزاز پانے والے ، رفاقت کا حق ادا کرنے والے ، اپنی جان مال اولاد سب کچھ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کرنے والے ، عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار و مشرکین مکہ کی ہر تکلیف برداشت کرنے والے ، سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر بیوی بچے ، وطن ، جائیداد قربان کرنے والے جب تمام عرب سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر یا مجنون کہتا تھا اس وقت صدقت َ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدقت َ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعرے لگانے والے ، شب ہجر ت معراج کے دولھا کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر غار ِ ثور تک لے جانے والے ، اپنا لباس تار تار کر کے غار ثور کے سوراخ بند فر مانے والے ،بلا واسطہ مصحفِ رُخ ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کرنے والے ، معلم کتاب و حکمت سے براہ راست درسِ حقیقی لینے والے ، سفر و حضر کے ساتھی ، زندگی بھر رفاقت کا حق ادا کرنے والے ، حضرت بلال اور دیگر کنیزوں اور غلاموں کو آزاد کر کے باد شاہِ حقیقی سے بہت بڑے متقی کا خطاب پانے والے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں تمام صحابہ و اہل بیت کی امامت فر ما نے والے ، محبوب کی محبت میں اپنے بیٹے کے قتل کا ارادہ کرنے والے ، سب رشتے توڑ کر حبیب ِ حق سے رشتہ جوڑنے والے ، جھوٹے مد عیان ِ نبوت کا قلع قمع کرنے والے ، الغرض بے شمار اوصاف جلیلہ و کمالات جمیلہ کے مالک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے اپنی دینوی و برزخی زندگی کو محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے وقف کر دیا ، گنبد خضراء کے انوار ِ تجلیات آج بھی اقوام عالم میں اعلان کر رہے ہیں
کیا مقدر ہے صدیق و فاروق کا
جن کا گھر رحمتوں کے خزینے میں ہے

وہ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہجن کے اوصاف و محامد ، خصائل و شمائل پر قرآن ناطق ، جن کی خدمات گرا نما یہ پر مصطفے ٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نازاں ، جن کے مناقب خواں صحابہ و اہل بیت ، جن کے مقتدی ، فاروق اعظم ، عثمان غنی ، علی المرتضی ، اُس صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہکے فضائل کما حقہ کو ئی بیان کرے تو کیا کرے ؟خوش نصیب ہیں اُمت محمدیہ میں وہ اہل علم و قلم جنہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی ذات ستودہ و صفات پر لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ثانی اثنین ، یارِ غار خلیفہ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی شان کچھ اس انداز میں بیان فر مائی ”اللہ نے یقینا اس وقت اُن (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مدد کی جب وہ دونوں (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ابو بکر ) غار (ثور ) میں تھے ، دو میں سے دوسرے ، جب وہ اپنے صاحِب سے فر ما رہے تھے ، غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

”(التوبہ :40)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہکے نسب میں
جناب مرہ تک چھ پشتیں ہیں شجرہ نسب اس طرح ہے ابو بکر صدیق بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ ، آپ کی والدہ کا نام سلمےٰ اور ان کی کنیت اُم الخیر بنت صخر بن عمر و مذکور تمیمیہ ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکی پیدائش سنہ فیل سے دو سال چند روز کم چار ماہ بعد ہوئی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ، ماَ صَبَ اللہُ فیِ صَد رِی شیئََا صَببتُہ فیِ صَدرِاَبی بکر ِ، کوئی چیز ایسی اللہ تعالی نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی جس کو میں نے ابو بکر کے سینہ میں نہ ڈال دیا ہو نیز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر عمر میں یہ خطبہ ارشاد فر مایا ”اَماَ بعدُ فَاِ نَ اللہ عزو جل اِتخذَ صَاحِبَکُم خَلِیلََ وَ لَو کُنتُ مُتَخِذََ ا خَلِیلاََ دُونَ رَبِی لاَ تَخذتُ اباَ بکرِخَلِیلاََ لَکِن ھُوا شَریکُُ فِی دِینی و صاَ حِبیِ الذی او جَبتُ لَہُ صُحبتیِ فیِ الغار ِ و َ خلِیفَتیِ فیِ اُمَتیِ ”خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثناء کے بعد معلوم ہو کہ اللہ نے تمہارے ساحب کو اپنا خلیل بنایا ہے (اس میں اشارہ اپنی مبارک ذات کی طرف ہے۔

اگر میں اپنے پرور دگار کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ میرے شریک ہیں میرے دین میں یعنی میرے مدد گار اور معین ہیں اور میرے دین اور یقین کے مظہر ہیں وہ میرے یار غار ہیں کیونکہ میں نے غار میں اپنا ساتھی ان کو منتخب کیا اور وہ میری امت میں میرے خلیفہ ہیں ”اس حدیث کو مختلف طریقوں سے محد ثین نے نقل کیا ہے چنانچہ بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری ، زبیر بن العوام اور ابن عباس سے اور امام ترمذی نے ابن عمر سے اور امام احمد نے زبیر سے اور ابو یعلیٰ نے با ختلاف ِ یسیر نقل کیا ہے دوسری حدیث میں ارشاد فر مایا ”بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور موسیٰ کو اپنا نجی اور مجھ کو اپنا حبیب پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا کہ البتہ پسند کیا میں نے اپنے حبیب کو اپنے خلیل اور اپنے نجی کے مقابلے میں ”ان دو نوں حدیثوں کے مضمون کو اہل دانش اور ارباب ِ تحقیق نے اس طرح بیان کیا ہے کہ خلت کے دو مقام ہیں ، ایک مرتبہ مُحبی کی انتہا ، یہ مقام دوسری حدیث میں مراد ہے ،دوسرا مقام مراتب و درجات محبوبی کی انتہا ، یہ مقام پہلی حدیث میں مراد لیا گیا ہے جس مرتبہ میں حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوسرا کوئی شریک نہیں ہے اور مقام محمود اسی درجہ کمال کے انتہا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ہے ”قسم خدا کی پیغمبروں اور رسولوں کے بعد ابو بکر سے کسی اور افضل شخص پر آفتاب طلوع اور غروب نہیں ہوا ”نیز رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ہے کہ ”میں ابو بکر کو تم سب سے جو بہتر جانتا ہوں وہ ان کے نماز روزہ کے سبب نہیں ہے بلکہ اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے سینے میں ہے یعنی یقین ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل میں 181احادیث مروی ہیں 88احادیث ایسی ہیں جن میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر کی فضیلت کا بیان ہے 17احادیث ایسی ہیں جن میں مجموعی طور پر خلفائے ثلاثہ کے فضائل ہیں 14احادیث میں خلفاء اربعہ کے فضائل مجموعی طور پر مذکور ہیں 16احادیث میں خلفاء اربعہ کے ساتھ اور صحابہ کرام بھی شریک فضائل ہیں اسی طرح (188+17+14+16+=316)تین سو سولہ احادیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکے فضائل میں روایت کی گئی ہیں یہ تعداد تو ان احادیث کی ہے۔

جو مخصوص نام کے ساتھ ہیں جن ہزاروں احادیث میں مہاجرین ، مومنین وغیرہ اہل ایمان و صلحاء کے فضائل مذکور ہیں وہ بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں صادق آتی ہیں حضرت عمر بن عبد اللہ فر ماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہم ابو بکر کے برابرکسی کو نہیں جانتے تھے پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہکو اور ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہکو ! (مشکوة باب ابو بکر الصواعق المحرقہ ص68)صحیح مسلم میں ہے۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ ”وہ کون شخص ہے جس نے آج روزہ رکھ کر صبح کی ہو ؟ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہنے عرض کیا میں نے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا وہ کون ہے جو آج جنازہ کے ساتھ گیا ہو ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہنے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا !وہ کون ہے جس نے آج مسکین کو کھا نا کھلا کر تسکین دی ہو ؟ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہنے عرض کیا کہ میں نے !رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا ، وہ کون آدمی ہے جس نے آج کسی بیمار کی خبر گیری کی ہو ؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے عرض کیا ، میں نے !رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ، یہ کام اُسی آدمی میں جمع ہوتے ہیں جو جنت میں جائے گا۔

علماء فر ماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص بغیر حساب اور اعمال کی سزا پائے بغیر جنت میں جائے گا ورنہ صرف ایمان لانا ہی خداکے فضل سے جنت میں جانے کا تقاضہ کرتا ہے ،ایک حدیث میں ہے جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے ”میری اُمت کا سب سے زیادہ مہر بان ابو بکر ہے اور جس شخص پر بھی میں نے اسلام کو پیش کیا وہ سر گرداں ہو گیا سوائے ابو بکر کے !(یعنی انہوں نے فوراََ اسلام قبول کر لیا )اس حدیث کو طبرانی نے اوسط میں اور ابن عساکر نے جابر اور حسن سے نقل کیا ہے ، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہیں ”جب مجھے (معراج کے لیے ) آسمان کی طرف اُٹھا یا گیا تو میں نے ہر آسمان پر اپنا نام محمد رسول اللہ لکھا ہوا پایا اور ابو بکر صدیق میرے پیچھے تھے نیز رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے ہیں ”قیامت کے دن سب لوگوں کو کھڑا رہنے کا حکم ہو گا سوائے ابو بکر کے ان کو اختیار ہو گا خواہ کھڑے رہیں یا وہ گزر جائیں اور یہ یقینی بات ہے کہ جب ان کو نامہ اعمال دیا جائے گا تو انہیں کہا جائے گا اگر چاہیں تو اسے پڑھیں نہ چاہیں تو نہ پڑھیں اور ان کے لیے ایک قبہ (گنبد نما محل ) سُرخ یاقوت کا اعلیٰ علیین میں بنایا گیا ہے جس کے چار ہزار دروازے ہیں جب بھی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے مشتاق ہوں گے ان میں سے ایک دروازہ کھُل جائے گا تو آپ اللہ تعالی ٰ کا دیدار بے پردہ کریں گے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی فر ماتے ہیں کہ ایک دن جبرائیل امین سے میں نے دریافت کیا کہ کیا میری اُمت کا قیامت کے روز حساب ہو گا ؟ جبرائیل نے جواب دیا ہاں حساب لیا جائے گا لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نہیں کیونکہ انہیں کہا جائے گا ، اے ابو بکر صدیق جنت میں چلے جائو وہ کہیں گے میں نہیں جائو ں گا جب تک دنیا میں مجھ سے محبت رکھنے والے میرے ساتھ جنت میں نہ جائیں ، رب العزت جل شانہ کا فر مان ہوگا اے ابو بکر اپنے دوستوں کو بھی بہشت میں لے جائو کیو نکہ میں نےاس دن وعدہ کر لیا تھا جس دن تجھے دنیا میں پیدا کیا اور میں نے بہشت کو کہہ دیا تھا جو بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت رکھے گا وہ تیرے اندر ضرور داخل ہو گا۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ”جب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے اللہ تعالیٰ نے جنت ِ عدن پر تجلی فر مائی اور ارشاد فر مایا کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ہے تجھ میں صرف اُسی کو داخل کروں گا جو اس بچے (ابو بکر ) کو دوست رکھے گا )ایک روز رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق کو بشارت دیتے ہوئے فر مایا ”اے ابو بکر !تجھے اللہ تعالیٰ نے رضوان ِ اکبر عطا فر مایا ہے ، ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عننے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !رضوانِ اکبر کیا ہے ؟رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا ”ےَتَجَلیٰ لِلمُومنینَ عَامَةََ وَےَتَجَلیٰ لَکَ خاَصَةََ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کے لیے عام تجلی فر مائے گا اور تمہارے لیے خصوصی تجلی ”(قرة العینین ص13بتغییر یسیر بحوالہ حاکم )روایت میں ہے کہ ایک دن صدیق اکبر نے 80ہزار دینار بلکہ جو کچھ اپنی ملکیت میں تھا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا اور فقر اختیار کر لیا اور کملی پہن کر بجائے بٹنوں کے کانٹے لگا لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ، اے ابو بکر ! یہ کیا حالت ہے ؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہنے ابھی کوئی جواب نہ دیا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہکی طرح کملی پہنے کانٹے لگائے پہنچ گئے۔

یہ حالت دیکھ کر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت تعجب ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا اے میرے بھائی جبرائیل ! یہ کیسا لباس ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہکی موافقت میں پہنا ہے اور تمام مقرب فرشتوں کو رب العزت کا فر مان ہے کہ آج سب فرشتے ابو بکر کی طرح کملی پہنیں اور اس میں کانٹے لگائیں اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ابو بکر کو خدا کا سلام پہنچا دیں اور ان سے کہیں کہ اس فقیری کے حال میں بھی تم اللہ تعالی ٰ سے خوش ہو ؟ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا سلام و پیام حضرت ابو بکر صدیق کو پہنچایا تو صدیق اکبر نے خوشی سے نعرہ لگا یا اور تین بار کہا کہ میں اپنے رب سے راضی ہوں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا اے ابو بکر !تجھ سے کون سا اتنا بڑا نیکی کا کام ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سلام اور رضا کا سبب ہوا ؟حضرت ابو بکر صدیق نے ابھی اس کا جواب نہ دیا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام دو بارہ اترے اور عرض کیا شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم نہیں ہے کہ ابوبکر صدیق نے اپنا تمام مال و اسباب جو ان کی ملکیت میں تھا سب راہ خدا میں دے دیا اور سات مسلمانوں کو جنہیں کافروں نے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رکھا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین سے پھر جائیں ان سب کو ابو بکر صدیق نے دس گنا قیمت دے کر خرید لیا جن میں حضرت بلال ،عامر ، نہدیہ ، نہدیہ کی بیٹی ، دبیرہ ، اُم عُمیس ، کنیزک بنی مویل شامل ہیں اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام سورة و ا للیل لے کر نازل ہوئے ، فَاَمَا مَن اَعطیٰ وَاتَقَی وَ صَدَ قَ بِا لحُسنیٰ فَسَنُےَسِرُہ لِلےُسریٰ کی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق سے مروی ہے اَعطیٰ یعنی دو نوں جہاں عطا فر مائے اور وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے وَا تَقیٰ لغو کاموں اور خطائوں سے پر ہیز کیا وَ صَدَقَ بِالحُسنیٰ اور رضائے الہی اور قرب ِ مولیٰ جل و علا کی طلب میں سچائی پر قائم رہے جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ وَمَا لِاَحَدِ عِندَہ ُمِن نِعمَةِِتُجزیٰ اِلاَ ا بتِغَا ئَوَجہِ رَبِہِ الاَعلیٰ وَلَسَوفَ ےَرضَی (اور نہیں کسی کا اس پر احسان جس کا بدلہ دے مگر اپنے رب کی رضا چاہنے کے لیے جو سب سے برتر ہے اور وہ راضی ہو جائے گا ) آپ نے فر مایا کہ ابو بکر نے اس جماعت کو خرید کر آزاد کر دیا اس لیے نہیں کوئی شخص اس کا بدلہ دے بلکہ اس نیت سے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو جائے اور یہ نیک کام جلد اللہ تعالی کی بار گاہ میں پہنچے اور اللہ تعالی اس سے خوش ہو رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق کے لیے دُعا فر مائی ”کسی آدمی کا احسان مجھ پر باقی نہیں ہے جس کا میں نے بدلہ نہ دیا ہو سوائے ابو بکر کے کہ اس کا مجھ پر ایسا احسان ہے جس کی جزا اللہ تعالیٰ ہی دے گا ”اس حدیث کو ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے۔

حضرت ابن ِ عمر سے مروی ہے کہ رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”یعنی جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو کہ وہ میرے صحابہ کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں تو
ان سے کہہ دو ‘تمہاری اس حرکت پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ”حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر ما یا ”میرے صحابہ کرام کی مثال میری اُمت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں ہو تا ”حضرت جبیر بن مطعم فر ماتے ہیں کہ رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فر مایا کہ پھر آنا اس خاتون نے عرض کیا اگر میں پھر آئوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پائوں تو کیا کروں ؟ اس کی مراد شاید وفات سے تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ”اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس آجانا ” (بخاری شریف ج 2ص 378)بخاری شریف کے علاوہ اس حدیث کو مشکواة ، ترمذی ، تاریخ الخلفاء نے بھی نقل کیا ہے اور اس حدیث کے تحت فر ماتے ہیں کہ اس سے ابو بکر صدیق کی خلافت کا اول ہو نا ثابت ہے۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

ابنِ عساکر نے حضرت ابنِ عباس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک خاتون رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں جو آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ دریافت کر نا چاہتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کہا کہ پھر آنا انہوں نے کہا کہ اگر میں آئوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پا ئوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو چکا ہو تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ”اگر تم آئو اور مجھ کو نہ پا ئو تو ابو بکر کے پاس آنا میرے بعد وہی خلیفہ ہوں گے (تاریخ الخلفاء ، ص 124صواعق محرقہ ص85) امام مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی علالت کے دوران فر مایا کہ ”یعنی تم اپنے والد اور بھائی کو بلالو تا کہ میں کچھ انہیں لکھ کر دے دوں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ میرے بعد کو ئی تمنا کر نے والا تمنا کرے یا کہنے والا کہے کہ میں ( خلافت کا مستحق ہوں ) پھر فر مایا کہ رہنے دو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور مومنین حضرت ابو بکر کے علاوہ کسی سے راضی نہیں ہوں گے ”مظاہر حق نے قاضی عیاض سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث اجود ہے اس میں اشارہ ہے کہ میرے بعد خلافت کے حقدار حضرت ابو بکر صدیق ہیں اور شیعہ جو حضرت علی کی خلافت پر اور وصیت کا ان کے حق میں واویلاکرتے ہیں وہ محض با طل ہے۔

اس کی اصل کچھ نہیں ہے ”(مظاہر حق ج 4ص 92)حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا کہ ” یعنی جس قوم میں ابو بکر ہوں انہیں لائق نہیں کہ ان کی امامت ابو بکر کے سوا کو ئی اور کرے ” حضرت علی اس حدیث کے تحت فر ماتے ہیں کہ اے صدیق اکبر آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ہمارے دین میں ہمارا پیشوا بنا دیا تو دنیا میں آپ کو ( خلافت کے لیے ) پیچھے کر نے والا کون ہے (مراة المناجیح ص 55) ابن ِ عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ابو بکر سے فر ما یا :آپ غار ( ثور ) میں بھی میرے ساتھی تھے اور حوض ِ (کوثر)پر بھی میرے ساتھ ہوں گے ”ایک اورجگہ رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ار شاد فر ما یا ” ابو سعید خدری نے نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فر ما یا :جس شخص کی صُحبت اور مال کا بوجھ مجھ پر تمام لو گوں سے بڑھ کر احسان ہے ، وہ ابو بکر ہیں اگر میں کسی کو اپنا خلیل قرار دیتاتو ( دوسری روایت میں ہے کہ اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو اپنا خلیل بنا تا ) تو ابو بکر کو قرار دیتا ، مگر اسلامی اخوت و محبت ہی کا فی ہے۔

مسجد کا کوئی چھو ٹا دروازہ سوائے ابوبکر والے دروازہ کے با قی نہ رہنے دو ” (متفق علیہ ، مشکواة المصابیح ، باب مناقب ابی بکر ) صحیح بخاری شریف میں ایک طویل حدیث ہے جس کے مطا بق نبی کریم ۖ نے اپنے آخری مرض ِ وفات میں اپنی جگہ سیدنا ابو بکر صدیق کو امامت نماز میں جانشین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقرر فر ما یا ، چنا نچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق کو امامت نماز کا حکم دیا تو سیدہ عائشہ و حفصہ نے عرض کیا کہ ابو بکر رقیق القلب ہیں ، کہیں مصلیٰ پر ہی رو نہ پڑیں ، لہذا کسی اور کو امام نماز مقرر فر مائیں مگر ہر بار با لا صرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر ما یا مروا ابا بکر فلےُصل با لناس ( صحیح البخاری ) ترجمہ : ابو بکر کو حکم پہنچا ئو کہ لو گوں کو نماز پڑھا ئیں ”

ایک روز رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دولت خانہ سے مسجد میں اس شان سے
تشریف لائے کہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر آپ کے دائیں بائیں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اورفر مایاہم اسی طرح قیامت کے دن اُٹھیں گے (اللہ کی شان دیکھو کہ ایسا انتظام کیا کہ دونوں صحابی روضہ اقدس میں پہلو ئے مبارک میں دفن ہیں ) ،رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (قیامت کے دن ) سب سے اول میرے اوپر سے زمین کشادہ ہوگی پھر ابو بکر پھر عمر کے ”
سر ولیم میور کی کج فکری ، اسلام اور اہل اسلام کے متعلق رائے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کیو نکہ وہ متعصب اور زیرہلا قلم کار اور دانشور مشہور ہے مگر وہ بھی خلیفہ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت اور اسلام سے بلا مشروط کمٹمنٹ کے بارے میں لکھتا ہے۔

‘اگرچہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور ِ خلافت مختصر تھا لیکن خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بعد اسلام کسی اور شخص کا اتنا ممنون احسان نہیں جتنا ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ،ابو بکر کا ان پر ایمان خود محمد ٠صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے خلوص و صداقت کی ایک مضبوط شہادت ہے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ( معاذ اللہ )ایک جھو ٹے نبی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ہو تا تو وہ ایک ایسے شخص کو اپنا دوست اور معتقد کبھی نہ بنا سکتے جو نہ صرف ذہین ، زیرک اور دانشمند تھا بلکہ اس کی ساری زندگی خلوص ، سلامت روی اور اصول پسندی کا مظہر تھی ” قارئین یہ اس شخص کا تبصرہ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جناب میں خراجِتحسین ہے جسے ہمیشہ تاریخ اسلام اور فتو حات ِ اسلام سے بُغض رہا ہے مگر وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اسلام رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مرہون ِ منت ہے تو وہ با کمال شخصیت ابو بکر صدیق کی ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے ہمیشہ رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ سیرت طیبہ کو رول ماڈل بنا یا ہے اور اُسی کے مطابق نظام ِ حکومت کو چلا یا ہے اور آپ ایک فرض شناس ، خادم قوم اور قانون کی پا بندی کرنے والے حکمران کے طور پر معروف
تھے۔

اگر ہمارے حکمران صرف حضرت ابو بکر صدیق کے دور ِ حکومت ہی کو رول ماڈل بنا لیں تو پا کستان تمام تر معاشی ، سیاسی ، اقتصادی ، داخلی اور خارجی مشکلات سے نجات پا سکتا ہے اور عوام بھی خو ش حالی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے حکمران خلفاء راشدین کی سیرت طیبہ سے کو سوں دور ہیں اور نافذ کرنا تو کُجا انہوں نے تو کبھی یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ ہم خلفاء راشدین خصوصاََ حضرت ابو بکر صدیق کے صرف ایک طرز عمل کو اپنی نظام حکو مت کا حصہ بنا لیں تو ہماری غریب عوام سُکھ کا سانس لے سکتی ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق کا وصال ہوا تو حضرت عمر فاروق نے نظام ِ خلافت سنبھا لا تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق با قاعدگی کے ساتھ فلاں علاقہ میں ایک غریب بوڑھی عورت کواپنے ہا تھوں سے کھانا کھلا یا کرتے تھے توحضرت عمر فاروق نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور جب آپ پہلے دن اُس نا بینابوڑھی عورت کو کھانا کھلانے لگے اور آپ نے روٹی کا لقمہ توڑ کر اُس کے منہ میں ڈالا تو اُس بوڑھی نا بینا عورت کی چیخ نکل گئی اور وہ عورت رونے لگی اور کہا کہ لگتا ہے کہ امیر المومنین (حضرت ابو بکر صدیق )اس دنیا میں نہیں رہے کیونکہ جب وہ روٹی کا لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے تو منہ میں ڈالنے سے پہلے وہ اس کو اچھی طرح چبا کر میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے کیونکہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اور وہ مجھے چبا چبا کر کھلاتے تھے آج کیونکہ آپ نے سالم لقمہ میرے منہ میں ڈالا ہے تو میں نے محسوس کیا ہے کہ آج مجھے کھا نا کھلانے والا کوئی اور ہے ، کاش ہمارے حکمران بھی ایسی عادتوں کے خوگر اور عادی ہو جائیں تو ملک میں کوئی غریب بھو کا اور غربت باقی نہ رہے۔

نزول ِ وحی سے ایک سال پہلے سے حضرت ابو بکر صدیق رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے جا تے تھے آغازِ وحی کے زمانے میں بسلسلہ تجارت شام میں گئے ہو ئے تھے جب واپس آئے تو قریش کے سردار ابو جہل ، عتبہ ، شیبہ وغیرہ ملنے گئے اثناء گفتگو میں حضرت ابو بکر صدیق نے تازہ خبر دریافت کی تو کہا سب سے بڑی خبر اور بڑی بات یہ ہے کہ عبد اللہ کا یتیم بچہ مدعی نبوت بنا ہے اس کے انسداد کے متعلق ہم آپ
کے آنے کے منتظر تھے یہ سُن کر حضرت ابو بکر صدیق کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا اور اعیانِ قریش کو خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر کے خد مت مبارک میں حاضر ہو ئے بعثت کے متعلق سوال کیا اور اسی جلسہ میں قبول ِ اسلام سے مشرف ہوئے ،رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر ما یا ہے ”میں نے جس شخص کے سامنے اسلام پیش کیا اُس میں ایک خاص قسم کی جھجھک اور تردد فکر ضرور پا ئی مگر ابو بکر کہ جس وقت میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا انہوں نے بلا جھجھک قبول کیا اس میں اختلاف ہے کہ اول اسلام کون لایا بعض کا۔

یہ قول ہے کہ حضرت علی المرتضی بعض نے کہا ہے کہ ابو بکر صدیق قول ِ فیصل یہ ہے کہ بالغ مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق ، لڑکوں میں حضرت علی ، بیبیوں میں حضرت خدیجہ اور غلا موں میں حضرت زید بن حارثہ سب سے اول اسلام لائے حضرت سعد بن ابی وقاص بھی وحی کے نازل ہو نے کے ساتویں روز دائرہ اسلام میں داخل ہو ئے اُن سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت علی المرتضی دو لت ایمان سے ما لا مال ہو چکے تھے د ولتِ ایمان سے سر فراز ہو نے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے اپنا سارا مال و متاع اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ۖکی بارگاہِ قدس میں نچھا ور کر دیا قریش میں ایک با اثر ہستی ہو نے کے حوالے سے آپ کا اچھا خاصا رعب و دبدبہ تھا اور آپ اثر انگیزشخصیت کے طور پر معروف تھے اِسی وجہ سے قریش کے معتبر لوگ جن میں حضرت عثمان ، حضرت زبیر ، حضرت طلحہ ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ،حضرت سعد بن ابی وقاص شامل تھے نے رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی با ر گاہ قدس میں حاضر ہو کر اسلام سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل کیا۔

بہت سارے ایسے افراد جو دائرہ اسلام میں داخل ہو نے کے بعد کفار کی سختیوں کا شکار رہتے تھے اُن میں سے بہت سوں کو حضرت ابو بکر صدیق نے وقفے وقفے سے خرید کر آزاد کر دیا جن میں حضرت بلال بھی شامل تھے حضرت بلال کی داستان بہت ہی درد انگیز اور دل سوز ہے حضرت بلال کا آقا اُن کے اسلام لانے کی وجہ سے اُن سے سخت ناراض تھا اور اپنی جھوٹی طاقت کے بل بوتے پر حضرت بلال کو طرح طرح کی اذیتیں دیتا رہتا تھا جون کی
سخت گرمی میں تپتی ریت پر لٹا کر سینہ مبارک پر بھا ری بھر کم پتھر رکھ دیا کرتا تھا اور مسلسل یہی کہتا رہتا تھا کہ جب تک تم لات و عزی ٰ پر ایمان نہیں لائو گے اُس وقت تک تمہیں آزاد نہیں کروں گا مگر حضرت بلال کا جذبہ ، استقامت اور رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کی کیفیت کا اندازہ لگا ئیے کہ اذیت ناک سزا کے بعد بھی بھاری بھر کم پتھروں کے نیچے سے بھی آواز آتی تھی ”اَحد ” احد ” میرا معبود وحدہ لا شریک ہے جب حضرت ابو بکر صدیق نے یہ حالت دیکھی تو خرید کر آزاد کر دیا حضرت حفیظ تائب نے خوبصورت پیرائے میں کہا ہے کہ صدیق وہ نگاہِ پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتخاب
جس کا نصیب شانِ حضوری ہے تا ابد اس کا وجود ملت بیضا کا اعتبار قول اِس کا معتبر تو عمل اِس کا مستند تھے مال و جاں نثار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر
طاعت کی مثل ہے نہ سعادت کی کوئی حد
ملحوظ اتباعِ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا
منظور کوئی شے تھی تو خوشنودی صمد
شیر ِ خُدا نے اس کو کہا اشجع اُناس
کیا اِس سے بڑھ کے اس کی شجاعت کی ہو سند
ترویج ِ دین پاک میں سبقت وہ لے گیا
یکجا تھے اس میں نور ِ یقیں ، جوہر ِ خرد
ملت پھر اضطرابِ مسلسل میں ہے اسیر
یا رب ! بحقِ حضرت صدیق المدد
مدینہ پہنچ کر سات مہینے تک رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ایوب انصاری کے مکان پر قیام فر مایا پھر ایک موقع پر 10اشر فیوں سے خرید کر مسجد نبوی تعمیر کرائی یہ اشر فیاں حضرت ابو بکر صدیق کے مال سے ادا کی گئی تھیں جو
صحابہ کرام مکہ سے ہجرت فر ما کر آئے تھے اُن کے لیے مسجد کے گرد مکا نات تجویز کیے گئے اسی سلسلہ میں حضرت ابو بکر صدیق کا مکان بھی مسجد کے متصل بنا جس کی ایک کھڑکی احاطہ مسجد کے اندر تھی۔

صداقت کے روشن چراغ ، ثانی اثنین ، یارِ فی الغار حضرت ابو بکر صدیق نے تمام غزوات میں بنفس ِ نفیس شرکت کی سعادت حاصل کی ، غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ کرام نے ایک چھوٹا سا سائبان رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نشست کے واسطے میدان ِ جنگ کے کنارے پر بنا دیا تھا اُس میں آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فر ما تھے اور حضرت ابو بکر صدیق شمشیر برہنہ لیے حفاظت پر کمر بستہ ، معرکہ کار زار گرم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود کفار پر حملہ فرما یا تو سردار میمنہ حضرت ابو بکر تھے اور سردار میسرہ حضرت علی ، حضرت ابو بکر صدیق کے بیٹے عبد الرحمن اس وقت تک کا فر تھے اور لشکر مشرکین میں شامل تھے جب حضرت ابو بکر صدیق نے اُن کو دیکھا تو طیش میں آکر للکارا اور ”او پلید میرے حقوق کیا ہو ئے ؟ انہوں نے جواب دیا ”صرف دستہ و تیر و سمند تیز گام باقی ہے اور گمراہی پیری کی قاتل تلوار ”اسلام لانے کے بعد ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمن نے اپنے والد کریم سے کہا کہ غزوہ بدر میں ایک موقع پر آپ میری زد پر آگئے تھے لیکن میں نے باپ سمجھ کر بچا دیا یہ سُن کر آپ نے کہا کہ کاش! تواگر ایک مرتبہ بھی میری زد پر آجاتا تو میں کبھی نہ چھوڑتا کیونکہ آپ میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخ تھے۔

آخر کار مسلمانوں کو فتح اور مشرکوں کو شکست نصیب ہوئی حضرت ابو بکر صدیق محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں غرق تھے حضرت عروہ نے روایت کیا ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دوسرے سال حضرت ابوبکر صدیق نے ایک روز خطبہ دیا اس میں یہ الفاظ زبان سے نکلے ”یعنی میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پارسال سنا ہے ”پارسال کے لفظ سے حادثہ وفات یاد آگیا بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور بے تاب ہو گئے سنبھل کر پھر خطبہ کا سلسلہ شروع کیا پھر ان الفاظ سے دل پر چوٹ لگی اور مضطرب ہو گئے تیسری دفعہ ضبط کی کوشش کی اور خطبہ ختم کیا رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی انا حضرت اُم ایمن کے پاس تشریف لے جا یا کرتے تھے بعد خلافت حضرت ابو بکر صدیق نے ایک روز حضرت عمر سے فر مایا ”چلو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں اور اُم ایمن سے چل کر ملیں ”وہاں پہنچے تو وہ رونے لگیں ، دونوں نے کہا روتی کیوں ہو ؟ اللہ کا تقرب اس کے رسول کے واسطے بہتر ہے ،کہا یہ میں بھی جانتی ہوں صدمہ اس کا ہے کہ وحی آسمانی کا سلسلہ منقطع ہو گیا یہ سُن کر دونوں صاحب رونے لگے ، امام سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کا اصلی سبب وفات رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تھی اس صدمے سے گھلتے رہے۔

یہاں تک کہ انتقال ہو گیا زمانہ علالت میں رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز مسجد میں تشریف لائے منبر پر بیٹھ کر اول شہدائے اُحد کے واسطے دعائے مغفرت کی اُس کے بعد فرمایا ”یعنی اللہ نے اپنے نیک بندوں میں سے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا اور قرب الہی میں سے جسے چا ہے پسند کر لے اس نے اللہ کے قرب کو پسند کیا ہے ”حضرت ابو بکر صدیق فراست ایمانی سے اس قول ِ حسین کی تہہ کو پہنچ گئے رونے لگے اور کہا ”نہیں بلکہ ہم اپنی جانیں اور اپنے باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قر بان کر دیں گے ”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سُن کر ارشاد فر مایا ”ابو بکر سنبھلو ” پھر ارشاد فر مایا کہ ”جس قدر مکا نوں کے دروازے صحن ِ مسجد میں ہیں وہ سب بند کر دیئے جا ئیں مگر ابو بکر کے گھر کا دروازہ بدستور ہے ” یہ کہہ کر فر مایا ”میں کسی کو نہیں جا نتا جو میرے نزدیک رفاقت میں با اعتبار احسانات کے ابو بکر سے افضل ہو ، پس اگر میں کسی کو قلبی دوست بنا نے والا ہو تا تو ابو بکر کو بنا تا مگر یہ صرف رفاقت اور اخوة ایمانی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی ہم کو اپنے پاس جمع کرے ” اس کے بعد مہاجرین کو رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین فر مائی کہ انصار کے حقوق کا خاص خیال رکھنا ، جب مرض میں شدت پیدا ہوئی تو رسول ِ رحمت ، پیغمبر انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا ”ابو بکر سے کہو کہ نماز کی امامت کریں یہ سُن کر حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا ”وہ ایک نرم دل کمزور آواز کے آدمی ہیں جب قرآن پڑھتے ہیں تو بہت روتے ہیں ”مطلب اُن کا یہ تھا کہ امامت کا اتنا بھاری بوجھ نہیں اُٹھا سکیں گے مگر کیونکہ رسول ِ رحمت ۖ کا ارشاد پاک تھا کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہو سکی اور اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق نے 17نمازیں رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک حیات میں پڑھائیں الغرض صفحات کے دامن کی تنگی کی وجہ سے ہم آگے بڑھتے ہیں۔

جب رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری وصال کے وقت تمام قبائل کے جید لوگ جمع ہوئے کہ اب خلیفہ کسے نامزد کیا جائے تا کہ ریاست کے معاملات احسن طریقے سے چلتے رہیں تو بیعت عامہ کے موقع پر مسجد نبوی میں تمام مسلمان جمع ہوئے اول حضرت عمر نے منبر پرکھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فر مایا ”میری یہ توقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب کے بعد تک زندہ رہیں گے لیکن اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو تمہارے پاس وہ نور موجود ہے (قرآن ) جو تم کو راستہ دکھائے گا جس پر اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلایا تھا اور ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی رفیق ِ غار ہیں اور وہ سب مسلمانوں سے زیادہ تمہارے معاملات کے انصرام کے اہل ہیں اب بڑھو اور اُن سے بیعت کر لو ” حضرت عمر نے خطبہ بالا ختم کر کے حضرت ابو بکر صدیق سے اصرار کیا کہ منبر پر بیٹھئے مگر وہ انکار کرتے رہے آخر حضرت عمر فاروق کا اصرار غالب آگیا اوررفیق ِ غار ، ثانی اثنین حضرت ابو بکر صدیق منبر پر بیٹھے لیکن اُس مقام سے ایک درجہ نیچے جہاں رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فر مایا کرتے تھے ، ادب و احترام کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر آپ منبر پر تشریف فر ما ہوئے جلوسِ منبر کے بعد عام طور پر مسلمانوں نے بیعت کی بیعت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے اپنا تا ریخی خطبہ ارشاد فر مایا جو سنہرے حروف سے لکھنے اور دل کے نہاں خانوں میں چھُپانے کے قابل ہے ،اول آپ نے حمد و ثناء الہی بیان کی پھر فر ما یا
” بعد حمد الہی اے آدمیو !واللہ مجھ کو ہر گز امیر بننے کی حرص نہ کبھی دن میں تھی اور نہ میں نے اللہ سے ظاہر یا پوشیدہ اس کے لیے دُعا کی البتہ مجھ کو یہ۔

خوف ہوا کہ کو ئی فتنہ نہ اُٹھ کھڑا ہو مجھ کو حکومت میں کچھ راحت نہیں ہے بلکہ مجھ کو ایک ایسے امر ِ عظیم کی تکلیف دی گئی ہے جس کے بر داشت کی مجھ میں طا قت نہیں اور نہ وہ بدون اللہ عز و جل کی مدد کے قا بو میں آسکتا ہے میری ضرور یہ آرزو تھی کہ آج میری جگہ سب سے زیادہ قوی آدمی ہو تا یہ تحقیق ہے کہ میں تمہارا امیر بنا یا گیا ہوں اور میں تم سے بہتر نہیں ہو ں اگر میں راہ راست پر چلوں مجھ کو مدد دو اگر بے راہ چلوں مجھ کو سیدھا کر دو صدق امانت ہے اور کذب خیانت ، جو تم میں کمزور ہے وہ میرے لیے قوی ہے انشا ء اللہ اس کا حق دلوا دوں گا اور تم میں جو قوی ہے وہ میری نظر میں کمزور ہے اس سے انشا ء اللہ حق لے کر چھو ڑوں گا ، جو قوم راہ حق میں جہاد چھو ڑ دیتی ہے وہ ذلیل کر دی جاتی ہے اور جس قوم میں بے حیائی کا راج ہو جا تا ہے اُس پر عام طور پر عذاب ِ الہی نازل ہوجا تا ہے جب تک میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی نا فر مانی کروں تم کو میری اطاعت نہیں کرنی چا ہیے۔

مورخین کا قول ہے کہ صحابہ کرام میں فصاحت و بلاغت میں دو صحابی سب سے زیادہ ممتاز تھے ایک حضرت ابو بکر صدیق اور دوسرے حضرت علی المرتضی ،اے کاش اگر ہمارے حکمران بھی اسی خطبہ کو ورد ِ زبان اور حرزِ جاں بنا لیں تو غریبوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے ہاتھ توڑے جا سکتے ہیں ،ہر مطلوبِ انصاف کو اس کی دہلیز پر انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطبہ کا ایک ایک حرف سچائی ، صداقت ، عدالت ، شجاعت ، عظمت اور عاجزی کے سانچے میں ڈھلا ہوا ملتا ہے ہم نے ہمیشہ غیروں کے افکار اور کردار کو اپنا یا ہے جس کی وجہ سے آج ہمیں پوری دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہے ہم آج بھی عظمت کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں ،ذلت و رسوائی کے تحت الثریٰ سے نکل کر عظمت و وقار کے اوج ِ ثریا تک پہنچ سکتے ہیںاگر رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بار گاہ قدس سے فیض یاب ہو نے والے قدسی صفت اور پاکیزہ نفوس کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے اور ان پر عمل بھی کیا جائے ،حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی نے اپنی معروف کتا ب ”ازالة الخلفاء ” میں خلافت کے مفہوم و معانی پر نہایت ہی خو بصورت اور لطیف بحث کی ہے جس کا خلاصہ نذر ِ قارئین ہے۔

یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت عام تھی اور آپ تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے واسطے مبعاث ہو ئے تھے بعد بعثت آپ نے جن امور کا اہتمام کوشش بلیغ کے ساتھ فر ما یا اگر ان سب کا استقرار کر کے جذئیات سے کلیات بنا ئیں اور کلیات سے کلی واحد جو جنس اعلیٰ ہو تو ثابت ہو گا کہ تمام کو ششوں کا مرجع اقامت دین تھی یہ جنس اعلی ٰ ہے اس کے تحت میں حسب ِ ذیل کلیات آتی ہیں ، علوم ِ دین کا احیاء (قائم رکھنا اور رائج کرنا ) علوم ِ دین سے مراد ہے قرآن و سنت کی تعلیم اور وعظ و نصیحت ، ارکانِ اسلام نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کا قیام و استحکام ، لشکر کا تقرر غزوات کا اہتمام ، مقد مات کا انفصال ، قاضیوں کا تقرر ، امر با لمعروف ( عمدہ افعال و اوصاف کا حکم دینا اور ان کو رائج کر نا ) و نہی عن المنکر ( بری باتوں کو روکنا اور ان کا انسداد کر نا ) جو حکام ِ نائب مقرر ہوں ان کی نگرانی کہ پا بند ِ حکم رہیں اور خلاف ورزی احکام نہ کریں ان جملہ امور کا اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہ نفس ِ نفیس فر ما یا اور ان کے انصرام کے واسطے نا ئب بھی مقرر ہوئے وعظ و نصیحت فر مائی ، صحابہ کو ممالک میں وعظ و نصیحت کے واسطے بھیجا ،جمعہ و عیدین و پنج وقتہ نماز کی امامت خود فر مائی ، دوسرے مقامات کے واسطے امام مقرر کیے۔

وصول زکواة کے واسطے عامل ما مور کیے وصول شدہ اموال کو مصارف مقررہ میں صرف کیا رویت ہلال کی شہادت آپ کے حضور میں پیش ہوئی اور بعد ثبوت روزہ رکھنے یا عید کرنے کا حکم صادر ہو تا ، حج کا اہتمام بعض اوقات خود فر مایا بعض اوقات نائب مقرر کیے جس طرح 9ھجری میں حضرت ابو بکر صدیق کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا ، غزوات کی سپہ سا لاری خود کی نیز اُمراء نائب سے یہ کام لیا گیا مقد مات و معاملات فیصل کیے قا ضیوں کا تقرر عمل میں آیا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد دین کے قیام و حفاظت کے واسطے ضروری تھا نائب مطلق یا خلیفہ کا تقرر ، تاکہ وہ اقامت دین کی مذکورہ با لا خدمات کا انجام دے ” حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں مختلف فتنوں نے سر اُٹھا یا جن میں جھوٹے مد عیان ِ نبوت اور مانع زکواة سر فہرست تھے آپ نے نہایت ہی جرات کے ساتھ ان کا قلع قمع کیا اور جب ایک مرتبہ بہت سے لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم سے نماز پڑھوا لو مگر زکواة معاف کر دو ان کا پیغام سُن کر حضرت ابو بکر صدیق نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا سب نے یہ مشورہ دیاکہ نرمی مناسب وقت ہے حضرت عمر بھی اس رائے میں شریک تھے ان کے یہ الفاظ ہیں۔

اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے ساتھ تالیف قلوب اور نرمی کا بر تائو کیجئے ”حضرت ابو بکر صدیق نے یہ مشورہ سن کر حضرت عمر کو مخاطب کر کے فر مایا ”یہ کیا کہ تم جاہلیت میں تو بڑے سر کش تھے مسلمان ہو کر ذلیل و خوار بن گئے ، وحی کا سلسلہ قطع ہو گیا دین کمال کو پہنچ چکا میری زندگی میں اس کی قطع و برید کی جائے گی واللہ اگر (فرض زکواة میں سے ) ایک رسی کا ٹکڑا دینے سے بھی لوگ انکار کریں گے
تو میں جہاد کا حکم دوں گا ”تو اس موقع پر حضرت عمر فاروق نے فر مایا تھا کہ اس کلام کو سُن کر مجھ پر منکشف ہو گیا ہے کہ اللہ نے ابو بکر کا سینہ جہاد کے واسطے کشادہ کر دیا ہے۔

متعدد احادیث ایسی ہیں جو حضرت ابو بکر صدیق کے سوال و جواب میں ارشاد ہو ئیں اس طرح وہ ان کے عالم وجود میں آنے کے با عث ہو ئے ایک سوبیا لیس حدیثیں بہ روایت حضرت ابو بکر صدیق مر وی ہیں ان کو امام جلال الدین سیو طی نے ”تا ریخ الخلفاء ” میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے ، فقہ کے متعلق اجتہاد کا قاعدہ مقرر کیا جو سارے مجتہدوں کا دستور العمل بن گیا اُمت کو فقہی معاملات میں جو مشکلات در پیش تھیں آپ نے اُ ن کا حل تجویز کیا مثلاََمیراث جدہ، میراث جد ، تفسیر ِ کلالہ ، حد شرب خمر ، تعبیر رویا یہ بھی ایک علم ہے جس کا ادراک جدید روشنی میں مشکل ہے وجہ یہ کہ جو لوگ نہیں سمجھتے یا نہیں سمجھا سکتے وہ نور و صفائی با طن سے محروم ہیں جس کی ضرورت اس فن کے لیے لازم ہے فن ِ تعبیر کے امام ابن ِ سیرین کا قول ہے ”آن حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس اُمت میں ابو بکر فن ِ تعبیر میں سب سے زیادہ ماہر تھے۔

کشف المحجوب میں ہے طریقہ تصوف کے امام ابوبکر ہیں غزوہ تبوک کا مشہور واقعہ کہ جب رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پو چھا کہ ”ما خلقت لعیالک ۔۔قال اللہ و رسولہ ” اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو، کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! امام شاہ ولی اللہ تصوف صدیقی کے ذیل میں حضرت ابو بکر صدیق کے اُن تمام اوصاف کی تفصیل کی ہے جو اساس ِ تصوف ہیں مثلاََتوکل ، احتیاط ، تواضع ، خدا کی مخلوق پر شفقت ، رضا ، خوف الہی ، خشیت الہی کا یہ عالم کہ ایک روز آپ نے درخت پر ایک چڑیا دیکھی تو حسرت سے کہا ”اے پرندے خوش حال ہے تو پھل کھاتا ہے درخت کے سایہ میں بسر کرتا ہے حساب کتاب کا کچھ کھٹکا نہیں کاش ابو بکر تجھ سا ہو تا ” طریقہ نقشبندیہ جو آج تک عالم میں فیض رساں ہے اور تشنگان ِ تصوف نقشبندیہ فیض کے اس اُبلتے چشمے سے جی بھر کر سیراب ہو رہے ہیں اس کا سلسلہ بواسطہ حضرت امام جعفر صادق حضرت ابو بکر صدیق تک پہنچتا ہے
اہل بصیرت نے تحریک پا کستان میں مر کزی کر دار ادا کرتے ہو ئے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر پا کستان کو معرضِ وجود میں لایا۔

آج اس مملکت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے جہاں مذہبی تفرقہ بازی اور مسلمانوں کے در میان اختلاف کی خلیج وسیع کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتیں اپنے باطل کا جال پھیلا رہی ہیں وہاں پر سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کے خلیفہ بلا فصل ہو نے پر بھی اُنگلیاں اُٹھا رہی ہیں وہ صدیق اکبر جن کی ذات والا صفات گنبد ِ خضراء میں آرام فر ما ہوں پوری کائنات زمین پر رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ترین کوئی اور شخصیت ہو نہیں سکتی اس صدیق اکبر کی ذات والا صفات کے کیا کہنے جو گنبد ِ خضراء میں اپنے محبوب کی ہمسا ئیگی میں ہوں اس پیارے پیکر صداقت ، جو انگشتری حق کا نگینہ ، علوم الہی کا خزینہ ، ، صاحب ِ دست ِ سخا ہے ، ارادے کا دھنی ہے ، دل کا غنی ہے جس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارہ ابرو پر تن کے کپڑے تک اُتار کر سرکار کی بارگاہ قدس میں ہیش کر دیے تھے اس محبوب جلوت و خلوت کا کیا کہنے جن کے دروازہ رحمت پر خوبصورت (دولہا ) داماد بن کر جائیں اور آپ کی اقتدا میں رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 17نماز یں ادا کر کے آنے والے کمزور عقل والوں کو عمل کر کے سمجھا دیا کہ اس سے بڑی بات اوراعزاز کیا ہو سکتا ہے۔

رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی اور اگر رب کریم کو ابو بکر صدیق کا خلیفہ اول ہو نا یا پرور دگار عالم کو مصلیٰ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھڑے ہو نا پسند نہ ہو تا تو آپ کبھی بھی امامت کے فرائض ادا نہ کر تے ، اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہم سب کو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت و غلامی عطا فر مائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے جانشین حضرت ابو بکر صدیق کی محبت و الفت سے ہمارا دل منور و غنی کر دے ( آمین)۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : نعمان قادر مصطفائی
فون نمبر: 03314403420