جمہوریت اک سراب بھی

Democracy

Democracy

حالانکہ اس نام نہاد جمہوریت کے حامی آج پوری قوت کے ساتھ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں مبادہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے ،طاہر القادری کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا پولیس اہلکاروں کو یرغمال کرنا کیا انصاف ہے ان دنو کی صورت حال تو اخبارات میں کہ تحریک منہاج القران کے ١٤ نہتے کارکن پولیس نے بھون دئے ان کے لئے قرآن خانی پر آنے کے لئے منہاج القرآن سیکرٹیریٹ کیطرف آنے والے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر پنجاب حکومت نے سیل کر دیا اس طرح نہ صرف مخالفین کے لئے راہ بند کی بلکہ عام شہری مشکلات میں ، خبر یں ہیں کہ ہسپتال تک پہنچنے سے پہلے ہی کئی مریض چل بسے کیا۔

یہ درست تھا اس احتجاج سے پہلے بھی طاہر القادری کا مارچ ہو چکا کمال نظم و ضبط سے اسلام آباد پہنچے اور…اب کیا ہوّأ کیوں اسُ کے راستے روک کر حالات کو خراب کیا….جب میان نواز شریف نے مارچ کی قیادت کی تب وہ مارچ درست تھا ،مگرآج عمران خان یا طاہر القادری کا مارچ غلط کیوں ،یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کیونکہ اِسے جمہوری دور کہا جاتا ہے شاہی فیصلے جمہوریت کی نفی ہے ،احتجاج ہر پاکستانی کا حق کہا جاتا ہے کہ احتجاج کرے،حکومت اُسے اپنے شاہی فیصلے سے روکتی ہے ….حضورۖ کی بہت مشہور حدیث ہے مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کرو ،… اس کی طویل تشریح ہے۔

حدیث مبارکہ کی گہرائی میں جا کر یہ معنی بھی ملے ہیں صرف مزوری یا اجرت ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حق دار کا حق بروقت ادا کرو ،تاکہ دوسرا فریق طاقت استعمال نہ کرے یہاں ……جہاں بھی آپ کسی کا حق روکیں گے تو یہی صورت حال ہوگی ، ہمیشہ اور آج بھی کہا جاتا ہے احتجاج جمہوری حق تو پھر ماڈل تاؤن کو چاروں اطراف سے بند کیو ںکیا ؟یہی اس رکاوٹ کے نتیجے میں تحریک کا جانی نقصان بھی ہوأ یاد رہے جذبہ انتقام انسانی فطرت ،ہے یہی وہ جذبہ ہے جس نے انصاف کے اجزائے ترکیبی کوجنم دیا اور ایک بگڑے ہوئے بے ترتیب سماج کو ترتیب دی….کیوں بھول گئے ہیں کے میاں نواز شریف نے بھی لانگ مارچ کی قیادت کی….تحریک کے مخالفین بھی کہیں گے کہ جلد بازی کی گئی۔

جس صورت نے حال کو بگاڑ دیا ہے ورنہ تحریک کا مارچ تو پہلے بھی ہوأ…… میاں شہباز شریف بار بار زور سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں عوام نے ،ینڈیت دیا ہے کل میاں نواز شریف نے بھی نشری تقریر میں زور دیکر تڑی کے انداز میں کہا کہ مجھے عوام نے مینڈیٹ دیا …..جناب اگر آپ لوگوں کو یقین ہے اور اعتماد ہے کے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے تو پھر ایسے مارچوں سے خوف زدہ کیوں ؟ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے مینڈیت اور ووٹر پر شک بھی یا پھر ….. اگر تو ہیوی مینڈیٹ ہے تو خوف کی کوئی وجہ نہیں تھی مارچوں کو فری ہینڈ دیا جاتا نہ کے کنٹینر لگا کر اپنی کمزوری ظاہر کی جاتی ایک تو طاہر القادری کی مقبولیت میں دو چند اضافہ کیا۔

عوام کو بھی پریشا ن ١٤ معصوم شہری بھی مار دئے اسلام آباد میں فوج بلا کر عمران خان کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ٢٠١٣ میں کل ووٹ جو ن لیگ کو ملے ایک کروڑ٤٨ لاکھ٧٤ہزار١٠٤،٣٢فیصداور سیٹ ملیں ١٢٦۔پی پی پی کو ووٹ ملے ٦٩ لاکھ ١١ ہزار ٢١٨(١٥ فی صد)اور سیٹ ٣٣۔ اس طرح پی ٹی آئی ،کو ووٹ ملے ٧٦ لاکھ ٧٩ ہزار٩٥٤۔(١٦ فی فیصد)اور سیٹ ملی٢٨۔عوام اس گورکھ دھندے کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ عوام تو ١٨ کروڑ بتائے جارہے ہیں کل ووٹر ہے ٨٩٨٠٢،٦١،٨۔یعنی کل آبادی کا نصف بھی نہیں ….اب بھاری مینڈیٹ کی حامل حکمران جماعت کو کل آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ ….ووٹر سے صرف ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ ووٹ لیکر ١٨ کروڑ پر حکومت کر رہی ہے یہ جمہوریت ہے توپھر آمریت کیا ہوتی ہے یہ بات بھی عام آدمی کی سمجھ سے دور ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

اب یہی الزام عمران خان کا کہ محض ٦٨ لاکھ ووٹ ڈیڑھ کروڑ کیسے بنایا، اِس وقت ملک میں سیاسی ٹمپریچر پچاس ڈگری سے بھی اوپر ہے ایک حلقہ ہے جنہیں شاہ پرست کہا جاتا ہے وہ موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے شاہ کے گن گا رہا ہے دوسر حلقہ کپتان کے اور قادری کا حامی ہے کچھ لوگ ہیں جو سچ کہنے سے نہیں ہچکچاتے ایسے میں مجھ جیسے سڑک سوار جو نہ تینوں میں نہ تیراہ میں کیا وقت ہوسکتی ہے جو نہ تو شاہ پرست اور نہ خان پرست کہ سب ہی اس مٹی سے ہیں جس میں…. . مجھے اہل ہنود کی ایک کہانی یاد آئی آپ بھی سنے، سرون نام ایک شخص ہے جو ماں باپ کا فرمانبردار ہے اسکے ماں اور باپ دونوں ہی اندھے ہیں سرون جب شام کو گھر واپس آتا ہے پہلا سوال ماں باپ سے کے وہ کیسے ہیں تو انکا یہ جواب ہوتا ہاں بیٹا اچھا ہے جیسے کہنی اور گھٹنا، اُسے یہ بات سمجھ نہ آتی کہ کہنی اور گھٹنا کیا ،ایک دن گھر سے نکل رہا تھا۔

کہنی دروازے ٹکرائی تو شدید درد ہوئی جن لوگوں کو کبھی کہنی یا گھُٹنے میں ایسی اچانک چوٹ یا ضرب آئی ہو وہ اس کی کسک کو جان سکتے ہیں اُسے بھی اِس کا احساس ہوأ پھر ایک دن وہ خلاف توقع گھر سے نکلنے بعد جلد ہی واپس آیا تو عجیب منظر دیکھا اُسکی پتنی نے اُنہیں جہاں مکوڑے تھے وہاں بٹھایا ہوأ ہے یہ درد ناک منظر دیکھ اُسے کہنی اور گھٹنے کی بات یاد آئی تب بیوی کو تو کچھ نہیں کہا وہنگی بنائی ایک طرف ماں کو اور دوسری باپ کو بٹھایا کندھے پر اُٹھا کر تیرتھ یاترا کے لئے گھر سے چل نکلا اسکا خیال تھا کہ اسطرح اُس کا پراسچت ہو جائے گا پھرتے پھرتے وہ اِس دھرتی پر آ نکلا جس دھرتی پر ہم ہیں اس نے وہنگی رکھی اور کہا پتا جی میرا کرایہ انہوں نے کہا پُتر جب ہم واپس اُسی جگہ جائیں گے جہاں سے تو ہمیں لایا ہے۔

تو تجھے کرایہ مل جائے گا مائی نے چلتے ہوئے وہا ں کی مٹی کی مُٹھی بھر کر پلو میں باندھ لی اور جب وہ اِس جُو سے نکل گیا متھرا کے قریب تھا ایک شام وہا ں بسر کی سرون کے باپ نے پوچھا بیٹا تمہارا کتنا کرایہ ہے وہ یہ سُن کر سکتے میں آ گیا پتا جی مجھے شرمندہ کر رہے ہیں ….. اگلے دن وہ متھرا کی طرف گیا وہنگی رکھنے سے پہلے مائی نے وہ مٹی جو ساتھ لائی تھی وہاں بکھیر دی اور وہاں سرون نے وہنگی رکھ دی اور جب اُٹھانے لگا تو ماں نے کہا پُتر تو نے بتایا نہیں کتنا کرایہ ہو گا تب سرون نے کہا کئی دن ہو گئے ہیں آپ کواٹھائے پھر رہا ہوں دے دیں جو دینا ہے….یہ روایت ستر برس پہلے سنی تھی کیا سچ یہ علم نہیں، البتہ اس میں بات سمجھنے کی یہ ہے۔

اِس خطے کی جسے پنج آب کہا جاتا ہے کی مٹی میں ہی یہ جمہوریت ہے نہ سمجھنے اور نہ سمجھانے کی کہا جاتا ہے ہم آزاد ہیں ….مگر یہاں ہزارو نہیں لاکھوں لوگ ہیں جن کا کہیں بھی شمار نہیں کہ ان کا گھر نہیں ان کا گھر ان کے کندھوں پر کہ شناخت نہیں کہ گھر نہیں اور وہ بھی مسلمان اور یہ دیکھ کر سوچتا ہوں چلئے پھر سہی …بات ہے مارچوں کی ٢٠ ،اگست کو تو ریڈ زون پہنچنے والوں کا پانی تک بند کر دیا کہ مارچ شرکاء عوام کو پانی اور کھانا اُن تک نہ پہنچ سکے، کیا اس کا ادراک حکومت اور جمہوریت کے ہمدردوںکو …..دونو فریق ہی بند گلی میں…سانپ کے منہ میں چھپکلی نہ کھا سکے اور نہ اگل سکے …. اس مارچ کو جس انداز میں دیکھا جا رہا یا ماضی کے کسی انقلاب سے موازنہ کیا جا رہا یہ محض ان کا خوف ہے ورنہ ایسے کسی انقلاب کا کوئی خدشہ نہیں …. ویسے حکمرانوں کی طرف سے زرا سی بھول کی بھی گنجائش نہیں، البتہ مفاہمت کی تیسری راہ کی گنجائش ابھی ہے۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: بدر سرحدی