اسلام آباد(جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ پر پیش کی گئی رپورٹ مسترد کر دی۔عدالت کا کہنا تھا کہ شیعہ برادری کی وارننگ کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔فوری اقدامات نہ کئے گئے تو دیگر شہروں میں بھی ایسے واقعات ہوں گے۔
سانحہ کوئٹہ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سر براہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی جانب سے سانحہ کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ عدالت نے مسترد کر دی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کھاد میں استعمال ہونے والا کیمیکل دھماکوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
سیکورٹی بڑھا دی گئی ہیاور ہزارہ ٹان جانے والے راستوں کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا آپ ہزارہ ٹاون کو الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے کوئی انتظامات نہیں کئے مسئلے کو جڑ سے پکڑنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ یہ شیعہ برادری کا قتل عام تھا اور اب اہلسنت بھی یہی شکایت کر رہے ہیں لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔جاں بحق ہونے والوں کو جو معاوضے دئے جا رہے ہیں وہ بھی محض ٹوکن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں طویل المدتی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔کیا آپ جنگل میں رہتے ہیں۔
ملزمان کو ٹرائیل کیے بغیر مار دیتے ہیں۔علامہ عباس کمیلی نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انیس سو ترانوے سے بلوچستان میں شیعہ برادری کا قتل عام جاری ہے کسی ملزم کو نہیں پکڑا گیا جو پکڑے گئے انہیں بھی چھوڑ دیا گیا۔ناصر علی شاہ نے کہا کہ بلوچستان میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایک سیکیورٹی بورڈ تشکیل دیا جائے جس میں ہوم سیکرٹری ، کور کمانڈر ،ایف سی ، پولیس اور ایجنسیوں کے سربراہان شامل ہوں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت اب تک دہشت گردی کے واقعات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکی۔شیعہ برادری کی وارننگ کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔فوری اقدامات نہ کئے گئے تو دیگر شہروں میں بھی ایسے واقعات ہوں گے۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ سانحہ بلوچستان کے ملزمان کو گرفتار اور متاثرین کو فوری معاوضہ دیا جائے جبکہ آئندہ ازخود نوٹس کی سماعت بھی بلوچستان بد امنی کیس کے ساتھ ہو گی۔عدالت نے آئی جی ایف سی ،آئی جی پولیس ،ہوم سیکرٹری اور چیف سیکرٹری سے سانحہ کوئٹہ کی جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت چھ مارچ تک ملتوی کر دی۔