پاکستان میں فوج کا ایک پاوں صحافی اور دوسرا سیاست دان کی گردن پر ہمیشہ مضبوطی سے جما رہا ہے، جہاں بھی ان میں سے کوئی کسمسا کر گردن اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، بھاری بوٹوں کے دباو سے بلبلا کر اپنی گردن کو پہلے والی پوزیشن میں ڈال کر چپ سادھ لیتا ہے ۔ صحافی اور سیاست دان فوجی کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ ایک دوسرے سے اس بات پر معرکہ آرا ضرور نظر آتے ہیں کہ کس کی گردن پر کتنا وزن ہے۔ ہر کوئی اپنے مقا بل پر ظاہر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے کہ وہ اس غیر مرئی وزن سے آزاد جبکہ دوسرا اس میں مکمل طور پر مبتلا ہے۔
سترہ فروری دو ہزار پندرہ کو نوجوان اینکر کامران شاہد او ر سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے درمیان اس وقت گھمسان کی جنگ چھڑ گئی جب رانا ثنا اللہ نے ان دی فرنٹ ٹاک شو میں میزبان کامران شاہد پر ایجنسیوں کا ایجنٹ ہ ہونے کا الزام عائد کر دیا۔اور کہا کہ وہ غیر ملکی آقاوںکے اشارے پر روز یہاں بیٹھ کر پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ جبکہ جواب میں کامران شاہد اس وقت غصے میں پھٹ پڑے جب رانا ثنا اللہ نے کامران کو توں تڑاخ کر کے مخاطب کرنا شروع کیا۔ کامران نے مطالبہ کیا کہ آپ ثابت کریں کہ میں کس طر ح ایجنسیوں کے ایجنٹ ہوں ؟ ٹاک شو زرا سی دیر میں میدان جنگ بن گیا، کا مران شاہد نے میزبانی کے تقا ضے لپیٹ کر ایک جانب رکھ د یئے ا ور پوچھا کہ آپ کا کام کیا ہے آپ کا کام یہ ہے کہ ماڈل تاون میں جا کر بارہ بندے مار دیں۔
اور سوال کیا کہ آپ تو ماڈل ٹاون سانحہ میں ملزم نامزد ہیں آپ کس منہ سے انصاف کی باتیں کر رہے ہیں آپ جیسے آدمی کو تم کیہ کر مخاطب کرنا چاہیئے لیکن میں پھر بھی پ کو آپ کیہ رہا ہوں، آپ سانحہ ماڈل ٹاون کی رپورٹ شائع کیوں نہیں کرتے ؟رانا ثنا اللہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ کہ آپ کو وہ رپورٹ شائع ہونے سے پہلے کہاں سے مل گئی کیا آپ نے رپورٹ ہایئکورٹ سے چوری کی ہے؟ کامران نے بھی پوچھ ڈالا کہ آپ کہتے ہیں کہ اس رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ آپ قصور وار ہیں تو آپ بتائیں آپ تو نامزد ملزم ہیں پھر یک ملزم کو وہ رپورٹ کہاں سے مل گئی۔ رانا ثنا اللہ نے استفسار کیا کہ اگر میرا نام ملزموں کی لسٹ میں ہے تو اس مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ یہ الزام درست ہے اور میں مجرم ہوں تو کامران نے جواب دیا تو پھر آپ بتائیں کہ آپ اس میں ملوث نہیں اور ملزم نہیں تو پھر اردو زبان میں ملزم کی ڈیفی نیشن کیا ہے۔
Rana Sanaullah
اس تکرار کا آغاز اس وقت ہوا جب کامران شاہد نے رانا اللہ سے سوال کیا کی کور کمانڈڑ کراچی نے وزیر اعظم سے مل کر کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال مقامی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے، جبکہ رانا ثنا اللہ نے دعوی کیا کہ کور کمانڈر نے ایسی کوئی بات نہیں کی آجکل بیشتر خبریں غلط ہیں ، اور حکومت گرانے کے لئے غلط پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے آپ اور آپ جیسے لوگ آرمی اور سول حکومت کو لڑوانا اچاہتے ہیں اس پر کامران شاہد نے کہا کہ اگر آپ ہمارے سوالات کے جواب نہیں دینا چاہتے تو آپ پروگرام میں نہ آیا کریں آپ کو تو یہ تمیز نہیں کہ آُپ مجھے تم کیہ کر بات کر رہے ہیں، کیا یہی آپ کی پارٹی کی ٹریننگ اور موٹیو ہے ؟ اس موقع پر کامران شاہد نے ضبط کے سارے بند ھن توڑ دئے اور غصے سے بھپر کر پوچھا رانا ثنا االلہ صاحب اپ بتائیں آپ کیا ہیں آپ ناخدا ہیں؟
ماضی کے چوٹی کے ہیرو شاہد کے صحافی بیٹے کامران شاہد اور فیصل آباد کے ٹہکے دار سیاستدان رانا ثنا اللہ کے مابین ہونے والا معرکہ پاکستان کے الیکٹرا نک میڈیا کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو گا، میرے زہن میں اس وقت معروف اینکر طلعت حسین کا وہ شو بھی آرہا ہے جس میں ق لیگ کے کامل علی آغا نے پہلے طلعت حسین کو پیسہ پاور اور پا لیٹکس کے ز عم لتاڑا پھر بات کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں جس کے جواب میں طلعت حسین نے فورا جواب دیا کہ میں آپ کا بھائی وائی نہیں ہوں آپ بس مجھے میرے سوال کا جواب دے دیں، مسلم لیگ ن کے بزرگ ترجمان مشا ہد حسین کا رویہ بھی اکثر نیوز شوز میں ہتک آمیز ہوتا ہے، اس سنسنی خیز مباحثے میں دو اہم باتیں ہوئیں ، پہلی بات یہ کہ مہمان اور اور میزبان نے اپنی ھدود سے تجاوز کیا
دوسری بات یہ کہ ایک نوجوان صحافی کامران شاہد نے اپنے ٹاک شو میں پہلی بار سیاست دانوں کی حدود کے گرد باقاعدہ دائرہ کھینچ کر بتا دیا کہ ان کی حدود و قیود کیا ہیں، دیکھنے میں آیا ہے کہ عمومی طور پر ایسے شوز میں سیاست دانوں کی جانب سے کارکن صحافیوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے باوجود سیاس دانوں کا ہی پلہ بھاری رہتا ہے، لیکن کامران شاہد نے رانا ثنااللہ کے زریعے دوسروں سیاست دانوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے والد کی طر ح محض ایکٹنگ نہیں کرتے ، اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے حقائق بیان کرتے ہیں وہ اپنے کام میں سنجیدہ ہیں ، چینلز کی نوکریا ں تو آنی جانی چیزیں ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ مزکورہ بالا ٹاک شو میں کامران شاہد کی مقرر انہ اور صحافتی صلاحتیں پہلی بار کھل کر منظر عام پر آئیں
انہوں نے ثابت کر دیا کہ صحافی کا کام سننا ہوتا ہے لیکن اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ اسے بولنا نہیں آتا جب کامران شاہد جیسے صحافی بولنے پر آتے ہیں تو بڑے بڑے رانا ثنا اللہ جیسوں کی بولتی بند کروا دیتے ہیں، رانا ثنا اللہ کو بھی اپنے مخصوص انداز میں اپنا فا ضلانہ خطاب پیش کرنے کا پرا موقع ملا تاہم وہ کئی موقع پر تھڑکے۔ پروگرام کے شروع ہی میں محسوص ہوتا نظر آ رہا تھا کہ دونوں صاحبان اس پروگرام میں لڑنے کے لئے پہلے سے تیاری کر کے آئے تھے ،
آن دی فرنٹ میں دو انتہائیں نظر آئیں ، اس کے فوری اور متوقع ردعمل کے طور پر ممکن ہے کہ دنیا ٹی وی والے کامران شاہد سے معزرت کر کے اسے گھر بھج دیں لیکن بظاہر مدبر بن کر دھیمے لہجے میں اپنی حکومت کے جائز و ناجائز کاموں کا دفاع کرنے والے رانا ثنااللہ کو فوری طور پر تو اس کا کو نقصان نہیں ہو گا لیکن حکومت وقت کے جانے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاون ان کے گلے پڑنے والا ہے، عمران خان اپنے کارکن حق نواز کے فیصل آباد میں ہلاکت پرسخت پر تپے ہوئے ہیں، سمجھ نہیں آتا میڈیا نمائند گان کی سر عام تزلیل کر کے رانا صاحب کیا کرم پال رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رانا ثنا اللہ صاحب کو میاں برادران کی گزشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد جاوید ہاشمی پر ٹوٹنے والے عذاب نہیں بھولیں گے !!!