اسلام آباد (جیوڈیسک) تیزاب گردی کے مجرم کی سپریم کورٹ سے اپیل مسترد ہونے پر تیزاب گردی کے شکار افراد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ امید کر رہے ہیں کہ اس فیصلے کہ دوررس نتائج مرتب ہوں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک فیصلے میں ایک مجرم کی بریت کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا، جس پر ایک عورت پر تیزاب پھینکنے کا جرم ثابت ہو چکا تھا۔ مجرم کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ تیزاب گردی کی شکار ہونے والی خاتون اور اس کے گھر والوں نے مجرم کو معاف کر دیا ہے لہذا اس کی بریت کی درخواست کو قبول کیا جائے۔ لیکن چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ قانون نے تیزاب گردی کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے اور مجرم کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کئی مقدمات میں عدالت سے باہر ہی صلح کر لی جاتی ہے۔ ناقدین کے خیال میں اس طرح کی صلح میں مجرموں کے رشتہ دار یا بااثر افراد ظلم کے شکار افراد کو دھونس، دھمکی یا پیسوں کی لالچ دے کر مقدمات واپس لینے کا کہتے ہیں، جس کی وجہ سے مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔ تیزاب گردی کے شکار افراد کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے بریت کا راستہ بند ہو گیا ہے اور قانون کی گرفت ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے گرد مضبوط ہوئی ہے۔
لودھراں سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ نذیراں بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے دوسرے شوہر، جو رشتے میں ان کے دیور لگتے ہیں، نے انہیں اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ نذیراں نے اپنے اوپر تیزاب پھینکنے والے کو معاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ” عدالت نے بھی وہ ہی کیا جو میں برسوں سے چاہتی تھی۔ اس سے لوگوں میں قانون کا خوف پیدا ہو گا اور تیزاب گردی کی روک تھام میں مدد ملے گی۔‘‘
نذیراں بی بی پر ان کی سوتن کے ایک رشتہ دار نے سال دو ہزار آٹھ کی ایک رات اس وقت تیزاب پھینکا، جب انہوں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اس کے چھوٹے بھائی سے شادی کی۔ چھوٹے بھائی کی بیوی نے اپنے ایک رشتے دار کے ساتھ مل کر ان پر تیزاب پھینکا۔ بعد میں ان کے شوہر نے دباو ڈالا کہ وہ مجرم کو معاف کر دیں لیکن نذیراں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کی بنا پر ان کے دوسرے شوہر نے انہیں چھوڑ دیا۔ نذیراں کی قانونی معاونت ایسڈ سروائیر فاؤنڈیشن پاکستان نے کی، جو اب ان کی مالی مدد بھی کر رہی ہے۔
پاکستان میں تیزاب گردی کے شکار صرف مرد، عورتیں یا بچے ہی نہیں ہیں بلکہ معاشرے کے سب سے پسے ہوئے طبقے یعنی خواجہ سراؤں کی بھی ایک بڑی تعداد اس بھیانک جرم کا شکار رہی ہے، جس سے ان کے مصائب میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ تاہم اس ظلم کی شکار نایاب علی، جو ایک خواجہ سرا ہیں، عدالت کے اس فیصلے پر خوش ہیں۔ نایاب علی نے اس فیصلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”میں بہت خوش ہوں کہ عدالت نے اتنا اچھا فیصلہ دیا۔ اکثر مجرم صلح صفائی کا بہانہ کر کے بری ہو جاتے تھے۔ اب عدالت نے اس کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ میرے خیال میں اسی طرح کے عدالتی فیصلے بچوں سے زیادتی اور دوسرے اہم مقدمات میں بھی ہونے چاہیئیں اور یہ صلح صفائی والا دروازہ بالکل بند ہونا چاہیے۔‘‘
لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ صرف فیصلوں سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے احسن رضا کا خیال ہے کہ اس طرح کے واقعات جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ ہیں۔ ”اس علاقے میں جاگیردار بھی بہت طاقت ور ہیں اور جاگیردارانہ سماج میں عورت کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو کمزور کیا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے اور وہ اس ظلم کو بہت اچھے انداز میں سمجھتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے یہ جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے، ”اس فیصلے سے نہ صرف ظلم کے شکار افراد کو انصاف ملے گا بلکہ ان با اثر افراد کی طاقت پر بھی ضرب لگے گی جو جرگوں کے ذریعے مجرمان کو معافیاں دلواتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں تیزاب گردی کے خلاف کئی دہائیوں تک موثر قوانین موجود نہیں تھے، جس کی وجہ سے ان واقعات کی روک تھام مشکل ہوگئی تھی۔ دو ہزار دس سے دو ہزار چودہ کے درمیان اس جرم میں بہت تیزی نظر آئی۔ تاہم دو ہزار چودہ میں منظور کیے جانے والے ایک نئے قانون کے بعد ایسے واقعات میں کوئی پچاس فیصد کمی ہوئی ہے۔ ایسڈ سروائیرز فاؤنڈیشن کی کوآرڈینیٹر زینب قیصرانی کا کہنا ہے کہ ایک اور بل قومی اسمبلی میں منظور ہونے کا منتظر ہے اور اگر یہ پاس ہو جائے تو ایسے واقعات کی روک تھام بہت حد تک ممکن ہے، ”ہماری کوششوں سے دو ہزار سترہ میں قومی اسمبلی نے ایک جامع بل پاس کیا تھا لیکن پھر حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے وہ سینیٹ میں پاس نہیں ہو سکا۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت اس بل کو پاس کرائے تاکہ اس طرح کے واقعات کی مکمل طور پر روک تھام ہو سکے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات لودھراں، ملتان، لیہ، مظفر گڑھ، رحیم یار خان اور راجن پور میں بہت زیادہ ہوئے ہیں، ”ایک بل وفاقی سطح پر پہلے ہی موجود ہے ۔ میرے خیال میں صوبوں کو بھی ایسے ہی بل پر فوری طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ ہمیں اس ظلم سے نجات مل سکے۔‘‘
ایک اندازے کے مطابق تیزاب گردی کے مجموعی واقعات میں سے پچاسی فیصد پنجاب میں رونما ہوئے ہیں۔ ایسے واقعات میں مجموعی کمی کے باوجود ایک نیا رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچوں پر اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سولہ کے درمیان بچوں کے خلاف تیزاب گردی کے واقعات میں چھ فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔
اس ظلم کے شکار افراد کی معاونت کرنے والے سماجی کارکن مرید عباس خان جتوئی کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے اس ظلم کے شکار افراد کی مالی معاونت بہت ضروری ہے، ”ہماری این جی او نہ صرف ایسے افراد کی مالی و قانونی مدد کرتی ہے بلکہ ان کو ہنر سکھا کر ان کی کفالت کے بھی ذرائع پیدا کرتی ہے۔ نو سو سے زیادہ متاثرین کی مدد کی جا رہی ہے لیکن حکومتی سطح پر بھی ایسے افراد کی مدد بہت ضروری ہے۔‘‘