تحریر : شکیل مومند وفاق کی طرف سے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا اعلان ہوگیا ہے لیکن حقیقت میں اصلاحاتی کمیٹی کے منظور شدہ مسودے میں سرے سے انضمام کے لفظ کا وجود ہی نہیں یہ تاثر دیا جارہا ہے قبائلی علاقے 5 سال کے عرصے میں خیبر پختونخوا میں ضم ہو جائیں گے لیکن حقیقت میں اصلاحاتی مسودے میں بہت ساری چیزیں ابہام پایا جاتا ہے جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔فاٹا اصلاحا ت کے مسودے کے مطابق 5 سال تک تمام ترقیاتی فنڈز کے استعمال کا اختیار گورنر کے پاس ہوگا اور اس کے لئے الگ سیکرٹریٹ بھی قائم کیا جائے گا اور جس کا صوبے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا رواج ایکٹ بھی قبائلی باشندوں کو منظور نہیں جو FCR کی طرح کا ایک قانون ہے قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرنا ہے تو رواج ایکٹ کی کیا ضرورت ہے جو قانون صوبے میں ہوگا وہی انہی قبائلی علاقوں پر لاگو ہوگا۔
2018ء کے عام انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ فاٹا کے منتخب نمائندے خیبر پختونخوا اسمبلی کا حصہ ہونگے لیکن ان کے پاس کوئی اختیار ہوگا اور نہ وہ اپنے علاقے کے لئے کوئی قانون سازی کرسکیں گے ہر لحاظ سے قبائلی علاقے تعلیمی اور معاشرتی اور انتظامی پختونخوا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خیبر پختونخوا کا گورنر وہاں کا چیف ایگزیکٹو ہوا کرتا ہے اس طرح چیف سیکرٹری قبائلی علاقوں کے افسران کا بھی باس ہوتا ہے اس طرح صوبے کے کمشنروں کو متعلقہ ایجنسیوں کے بارے میں اختیارات دیئے گئے ہیں قبائلی طلبہ خیبرپختونخوا کے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھتے ہے قبائلی علاقوں میں ہسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے وہاں کے سارے مریض پختونخوا کے ہاں علاج کرتے ہیں ۔شعبہ صحت کے افسران کے لئے کروڑوں کے ادویات بیچ دینا ایک عام سی بات ہے قبائلی علاقہ وہ بدقسمت علاقہ ہے جس میں ملیریا 90 فیصد آبادی میں موجود ہے FCR کے خاتمے سے ہر ادارہ آڈٹ کے زمرے میں آ جائے گا اور تقریبا 80 فیصد کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔
اصلاحا ت میں مراعات یافتہ طبقہ مالکان کا وجود ختم ہو جائے گا اور قبائلی عوام رائے دہی کی بنیاد پر ایسے نمائندے منتخب کر سکیں گے چونکہ ان کے مسائل کو سمجھے اور ان کے حقوق کے لئے اعلیٰ حکام سے بات چیت کرسکتے ہیں ہر چند کہ پاکستان کا عدالتی نظام مثالی نہیں اور نہ ہے مگر عدالتوں کے قیام سے قبائلی عوام کو اپیل وکیل اور دلیل کا حق مل جائے گا جو کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اگر آپ جرگے کی بات کرتے ہیں ۔ جرگہ نظام ابھی بھی خیبرپختونخوا بلوچستان اور سندھ میں کام کر رہا ہے جرگہ کا فیصلہ عدالت کو بھی منظور ہے اور باقاعدہ احترام دی جاتی ہیں۔
بھوت سکولوں ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں تعلیم و صحت کا اجرممکن ہو جائے گا قبائلی علاقوں میں 50 فیصد ایسے سکولز اور صحت کے مراکز ہے جن کو مراعات یافتہ طبقہ ملکان مشران بطور حجرہ استعمال کرتے ہے۔ FCR اس کے تحت فاٹا کا ہر سرکاری ادارہ آڈٹ سے جڑا ہے اساتذہ کی تنخواہیں سے کٹویاں وفات شدہ یا خلیجی ممالک میں رہائش پذیر پاکستانی سرکاری ملازمین (باشندگان فاٹا) کی تنخواہیں ملی بھگت سے چلانا جو کہ عام معمول ہے ۔ اس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔