یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ لمحہ بھر کی غفلت یا تاخیر ہمیں سینکڑوں سال کی مسافت طے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس وقت کو مدِّنظر رکھا جانا بے حد ضروری ہے۔ پچاسی سالہ فخرو بھائی تو اپنا کام بخیر وخوبی نبھانے میں لگے ہیں کیا وہ مکمل اورشفات طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھا پائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر پچاسی یا غالباً چھیاسی سالہ نگراں وزیراعظم کیا صرف کابینہ بنانے میں اس وقت کا زیاں کر دیں گے یا کوئی عملی اقدامات بھی کریں گے عوام کوآپ کے عملی اقدامات کا انتظار ہے جناب! یاآپ بھی صرف وقت پورا کرکے تمام معاملات نئی حکومت پر ڈال دینا چاہتے ہیں۔
اٹھیئے چیف جسٹس صاحب کی طرح ، جاگیئے فخرو بھائی کی طرح تاکہ عوامی مسائل میں کچھ کمی ہو سکے۔ بنیادی ضروری اقدامات کی اس وقت اشد ضرورت ہے ۔ آپ کو جگانے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ نئی حکمرانی کا مسیحا آنے میں کچھ وقت ہے اور جو وقت آپ کے پاس ہے اسے کارگر بنا یئے تاکہ اس ملک کے عوام آپ کے جانے کے بعد بھی آپ کو یاد رکھیں کہ کوئی نگراں بھی آیا تھا جس نے ملک کے عوام کے لئے کچھ کردار ادا کیا تھا۔ عوام اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تو گیارہ مئی کو چُن ہی لیں گے جس کی انہیں تلاش و آرزو ہے۔
دریا کا کام ہے اپنی موج کی طغیانی کو سنبھالنے کا،وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس کی کشتی پار لگے گی ، کس کی درمیان میں ہے اور کس کی ہچکولے کھا رہی ہے یا ڈوب گئی ہے ۔ بعض بستیاں بھی ایسی ہوتی ہیں جہاں سورج طلوع و غروب ہوتا ہے لیکن موسم ٹھٹھر جاتے ہیں، رُتیں نہیں بدلتیں، منظر ساکت و جامد رہتے ہیںاور زندگی کے شب و روز کروٹیں بدلنا بھول جاتے ہیں اور زندگی سازشیوں کی ابلیسی جال میں پھڑپھڑاتی رہتی ہے۔ ہر آنے والا مسیحا یا نجات دہندہ لگتا ہے مگر نصف صدی تک تو ایسا ہی ہوتا رہاہے کہ نجات دہندہ لگتا ضرور ہے مگر کُرسی پر آنے کے بعد سب کچھ بھول کر اپنی کرسی بچانے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔
Rain
اور عوام اپنی خواہشات کے سائبان سے مصائب کی کمی کے لئے بارشوں کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی (عوام) آج کل انہی حالات سے دو چار ہے۔ ایک جیسی سیاست، ایک جیسے بیزار کن موضوعات اور مقدر بن جانے والے معمولات سے چھٹکارا ملتا انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ سُوکھے پتوں کی ڈھیر کی طرح عوامی مستقبل جل رہا ہے مگر کسی کو یہ چنگاری سلگتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ ان حالات میں عوام کو کیسا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیئے ۔ ظاہر ہے کہ تحمل، بردباری، اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی پارٹیاں تو عوام کو ایک بار پھر چارہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں آنے والے دنوں میں الیکشن کا درجہ حرارت میں اضافہ بھی ہونے کو ہے ۔ عوام کو خاموشی اور ووٹ کے ہتھیار سے ہر وار کند کرنا پڑے گا ، جذباتی رد عمل سے ان طاقتوں کو موقع فراہم نہیں کرنا چاہیئے کہ آزمائے ہوئے لوگ دوبارہ آپ پر مسلط ہو جائیں۔ جو چاہتی ہیں کہ قتل و غارت گری ، بے امن و امانی، مہنگائی کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے اور اس کی آڑ میں حکمرانی کا عمل بھی جاری رہے۔ اس لئے کہ ان لڑائیوں سے عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے کہ شام ہو جائے زندگی سُست گام ہو جائے اے نئی نسل خوں ہے گرم ابھی کوئی تاریخی کام ہو جائے
اُمید ہے کہ باشعور پاکستانی قوم نے گذشتہ ادوار سے اس سبق کو اچھی طر ح ذہن کے نہاں خانوں میں بمصداق فیصلے کے جگہ دے چکے ہونگیں اور اگر جگہ وہاں مل گئی ہے تو دل سے یہ بھی جواب آچکا ہوگا کہ یہاں عوام کا کوئی نہیں، اور نہ ہی عوامی بنیادی سہولتوں کو فراہم کرنے پر کسی کی نظر ہے۔ اور نہ ہی آج تک کوئی ضروری مسئلہ حل ہوا ہے۔ یہ سب معاملات آپ کے سامنے ہے ۔ سچائی لکھنا ایک ایسا وصف ہے جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں، مگر مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہماری قوم کے لوگ دھڑلے سے جھوٹ پر وار ے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا ہمارا شیوہ نہیں ہونا چاہیئے۔ کیونکہ: تمہیں کو بڑھ کر یہاں انقلاب لانا ہے ہر ایک دور پیمبر کہاں سے لائے گا
ملک کی سیاست میں بھی یہی صورتحال ہے اس کی تمام تر ذمہ دار بھی یہی عوام ہیں۔ لکھاریوں کے عنوان بدلتے گئے اور نئے نئے مسائل بھی کھڑے ہوتے گئے مگر عوام ہے کہ بے خبری کی نیند سوئی ہوئی ہے۔ زمانے کے تیور بدل رہے ہیں تو آپ کے نیند کیوں ختم نہیں ہو پا رہی ہے۔ یہ سب کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نگرانوں کا دور اس وقت ملک بھر میں رائج ہے ۔ فی الوقت تو عوام کو ان سے کچھ اُمیدیں ہیں مگر اس پر بھی اُوس پڑتی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا قیام ہے جس پر فوری توجہ کی اشد ضرور ت ہے۔ کیا ہمارے نگران اس سمت میں کوئی قدم اٹھائیں گے یا پھر اقتدار کی مستیوں میں الجھے رہیں گے۔
Interior Minister
بڑے بڑے نام نگرانوں میں شامل ہیں۔ سندھ کے وزیرِ داخلہ یہاں کہ حلقوں میں بڑا معتبر نام ہے اب دیکھیں کہ وہ کراچی کے حالات کس طرح کنٹرول کرتے ہیں۔ دیگر صوبوں میں بھی کافی اچھے اور بڑے نام نگرانوں میں شامل ہیں۔ وہاں بھی الیکشن سے پہلے امن و امان ہی بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ دیکھئے کہ کیسی کارگزاری نگرانوں کی طرف سے ادا کی جاتی ہے اور عوام ان کے کاموں سے کس حد تک مطمئن ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ وقت کے ساتھ ہی نظر آئے گا۔
٢٠١٣ء کا الیکشن جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے ،بڑی پارٹیاں وزیراعظم کی کرسی پر بُراجمان ہونے کے خواب میں شدت لا رہے ہیں مگر یہاں پر بھی عام لوگوں کو اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ عام لوگ ہی تو ووٹ کے ذریعے انہیں اُس کرسی تک داد رسی دیں گے۔ اب یہ اور بات ہے کہ کون اس کرسی کا حقدار ٹھہرتا ہے اور کس کا دھڑن تختہ ہوتا ہے یہ گیارہ مئی کو ہی معلوم ہو سکے گا۔ہماری تو رائے یہی ہے کہ جو بھی آئے عوام کو اس سے غرض نہیں بس غرض ہے تو اتنا کہ وہ عوامی مسائل کو فوری طور پر حل کرے۔بے امن و امانی ، بے روزگاری، مہنگائی جیسی لعنت کو ختم کرے،ملک سے کرپشن کا ایک ہی جھٹکے سے ختم کرنے کی فوری سعی کرے، غریب اور متوسط طبقوں کے ملازمین کے لئے تنخواہوں میں فوری اضافہ کرے، مزدور پیشہ لوگوں کے لئے کوئی اچھا پیکج لائونچ کرے۔
جسے سے انہیں جینے کی راہ نظر آئے، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرکے عوام پر راج کرنے کا سلیقہ سیکھے۔آج جو ملک میں گنے چنے چند نوکریوں کا اشتہار دیا جاتا ہے اسے عام فرد تک رسائی دی جائے کیونکہ رشوت کے بغیر غریبوں کو نوکریاں بھی نہیں ملتیں۔ اور اگر نوکری نہیں ہوگی جو اس کے گھر کا چولہا کس طرح جل سکتا ہے۔ قلم کی جنبش تو رُکنے کا نام نہیں لیتا مگر کالم کے صفحات دراز ہو رہے ہیں اس لئے اختتامِ کلام بس اتنا کہ حکمران چاہے جو بھی ہوں اپنے آنے کے بعد فی الفور عوام اور عوامی مسائل کو حل کرنا ہوگا تاکہ یہ ملک اور یہاں کے عوام دوسرے ملکوں کی طرح ترقی کر سکیں۔ تحریر: محمدجاوید اقبال صدیقی