تحریر: شہزاد، عمران رانا ایڈووکیٹ آج میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ ہے تو بہت وسیع و عریض مگر میں کوشش کرونگا کہ مختصر الفاظ میں خاص کر اُن افراد کے لئے سمجھنے میں آسانی ہو جن کا تعلق شعبہ قانون سے نہیں ہے۔
فوجداری کاروائی میں شامل ایک اہم جزو استغاثہ جس سے عام فہم لوگ نا واقف ہیں۔ استغاثہ دفعہ 200ضابطہ فوجداری کے تحت اُس وقت دائر کیاجاتا ہے جب کسی سائل کی درخواست پر پولیس کا روائی نہ کرے یا پھر اُس کی طرف سے درج مقدمہ یعنی FIR کی تفتیش کے دوران پولیس ملزم یاملزمان کے ساتھ سازباز ہو جائے یاپھر اور کو ئی وجہ بن جائے اگر پولیس مقدمہ میں ملزم یاملزمان کو بے گناہ کرکے عدالتی رحم وکرم پر چھوڑ تے ہو ئے چا لان کر دے تو اِن حالات میں معزز سپریم کورٹ کا حکم2014 SCMR 474 کے تحت دوبارہ تفتیش کروائی جاسکتی ہے ویسے تو دوبارہ تفتیش پولیس کی جانب سے مقدمہ کی اخراج رپورٹ بنانے کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔
جرائم کی دو اقسام ہوتی ہےں (1) قابلِ دست اندازی پولیس ۔جس میں پولیس افسر بلا وارنٹ ملزم کو گرفتا ر کرسکتا ہے (2)ناقابلِ دست اندازی پولیس۔ایسا جرم جس میں پولےس افسر بلا وارنٹ ملزم کو گرفتا ر نہیں کرسکتا ایسے جرائم میں استغاثہ ہی دائر کیاجاتاہے۔
عموماً ہر خاص و عام اپنے کسی بھی وقوعہ یا معاملے میں یہ ہی کو شش کرتا ہے کہ وہ FIRدرج کروائے تاکہ اس طرح وہ اپنے حریف یا ملزم پر نفسیاتی دباﺅ ڈال سکے بشرطیکہ پولیس ایمانداری سے تفتیش کرے اورغیرجانبدار رہے بصورتِ دیگر سائل کو مایوسی ہی اٹھانا پڑے گی اور اس صورتحال میںاستغاثہ دا ئر کرنابہترین حل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ معاملہ میںعدالت خود انکوئری کے ذریعے حقیقت کا تعین کرسکتی ہے۔
اب بات کرلی جائے کہ استغاثہ کیسے دائر کیا جاتا ہے ۔زیر دفعہ 200ضابطہ فوجداری کے تحت استغاثہ اُس مجاز عدالت میں دائر کیا جاتا ہے جو اس کی اختیارِ سماعت رکھتی ہویعنی علاقہ مجسٹریٹ یا سیشن عدالت ۔تحریری استغاثہ دائر کرنے کے بعد متعلقہ جج صاحب پر لازم ہوتاہے کہ وہ سائل یا مستغیث سے اُس کا تحریری بیان قلمبند کرے اس کے علاوہ سائل پر لازم ہوگا کہ اِس کے پاس اِس وقوعہ کے دو حقیقی یا چشم دید گواہان لازمی ہوں کیونکہ اس کاروائی میں مجاز عدالت ان دونوں گواہان کے بھی بیانات قلم بند کرے گی۔
دفعہ 201ضابطہ فوجداری میں کہا گیاہے کہ استغاثہ کی سماعت مجاز عدالت ہی کرے اگر کوئی سائل کسی ایسی عدالت میںاستغاثہ دائر کرے جو مجاز نہ ہوتو اُس عدالت پر لازم ہوگا کہ وہ تحریری حکم نامہ جاری فرماتے ہوئے سائل کومجاز عدالت میںاستغاثہ دائر کرنے کی ہدایت کرے یا پھر زبانی ہدایت جاری کرے۔
دفعہ 202ضابطہ فوجداری میں استغاثہ کے مندرجات کے حقیقی ہونے کی تحقیق کی جاتی ہے اِس دفعہ کے تحت مجاز عدالت کسی بھی مجسٹریٹ یا پولیس افسر کو یہ ذمہ داری سونپ سکتی ہے مگر اس بات کا فیصلہ استغاثہ کی مجاز عدالت کرے گی۔ عام طور پر اگر علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت سائل کے استغاثہ کی تحقیق اُسی پولیس سے کروانا چاہے جس نے سائل کی دادرسی نہ کی ہو تو اس امرکو معزز لاہور ہائی کورٹ نے اپنے حکمPLD 1998 Lah. 539 میں ناپسندیدہ قرار دیاہے اور مجاز عدالت کو حکم جاری فرمایاہے کہ وہ خود ہی استغاثہ کے حقیقی ہونے کی تحقیق کرے۔
عام طور پر یہ پورا مرحلہ سرسری شہادت کہلاتاہے جو سائل کے بیان سے شروع ہو تاہے استغاثہ کے حقیقی ہونے کی تحقیق کے دوران دو گواہان کے بیانات یعنی تما م بیانات بمعہ سائل بر حلف ہوتے ہیں اگرسائل کوئی دستاویز ثبوت کے طور پر پیش کرنا چاہے تو اُسے بھی اس کاروائی کا حصہّ بنایا جاتا ہے اِس کے بعد سائل کا وکیل مجاز عدالت میں سرسری شہادت مکمل ہونے کا بیا ن دیتا ہے جس کے بعد اِس وقت تک کی تمام تر کاروائی پر اپنے دلائل مکمل یاابتدائی بحث کرتا ہے سرسری کاروائی مکمل ہونے کے بعد اگر مجاز عدالت استغاثہ کے واقعات اورگواہان کے بیانات سے مطمئن نہ ہو تواستغاثہ خارج بھی کرسکتی ہے یہ کاروائی دفعہ 203ضابطہ فوجداری کے تحت ہوگی یابصورت دیگر عدالت استغاثہ کو منظور فرماتے ہوئے ملزم یا ملزمان کی طلبے کا حکم جاری کرے گی جو دفعہ 204ضابطہ فوجداری کی کاروائی ہے۔ (جاری ہے)