تحریر: صفوان غنی، شاہین باغ، نئی دہلی انسان کی یہ فطرت ہے کہ جس شخص سے وہ محبت کرتا ہے اگر اس کے خلاف آپ کچھ بولنا شروع کر دیں یا تضحیک کرنے لگیں تو اسے برا لگے گا۔ یہاں تک تو بہت سیدھا سا اصول ہے۔اس کا ٹھیک دوسرا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ جس کی برائی آپ نے کی اُس کے لیے اِس شخص کے دل میں مزید جگہ بن جاتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص آپ کی نگاہ میں برا ہے اور دوسرا بھی اسے برا کہنے لگے تو آپ دونوں باہمی خیال کے نتیجہ میں قریب آ جاتے ہیں۔آپ میری اس بات کویہ کر سرے سے کاٹ سکتے ہیں کہ حق کو حق کہنا اور باطل کو باطل کہنا ایک صاف گو اور انصاف پسند شخص کی صفت ہوتی ہے چاہے اس کے نتیجہ میں کسی کو برا لگے یا بھلا ۔لیکن حق اور باطل کے فرق کو سمجھانا اور باطل کی تضحیک کرنا دونوں میں بہت فرق ہے۔باطل کی تضحیک کرنا باطل کو مزید بڑھاوا دینا ہے۔
ہندوستانی سماج کا ایک بڑا حصہ پچھلے دو چار سال میں ان دو خانوں میں تقسیم ہوتا نظر آتا ہے۔ہمارے ملک کے موجودہ سیاسی نظام نے کچھ ایسی ہی فضا قائم کر دی ہے۔ اس کا ذمہ دار جتنا ایک طبقہ ہے تقریبا اتناہی دوسرا طبقہ بھی ہے، جس طبقے سے ہم جیسے لوگ بھی وابستہ ہیں۔ہم نے سنجیدہ گفتگو علمی و منطقی دلائل کے بجائے طعنہ و تشنیع کو اپنا ہتھیار بنایا اور ایک مخصوص گروہ بلکہ ایک مخصوص شخص کی اتنی تضحیک کی کہ اس کے حامیان کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کے دلوں میں اس شخص کے لئے اور جگہ بنتی چلی گئی۔اس خلیج کو حالیہ چند واقعات نے مزید گہرا کیا ہے۔
ایم ایم کلبرگی ،گو وند پنسرے، محسن شیخ کا قتل ، دادری کا اندوہناک سانحہ ا ور اس کے نتیجہ میں مختلف لوگوں کے بدترین بیانات،تخلیق کاروں کی ایوارڈ واپسی، سودھیندرا کلکرنی کے چہرے کو سیاہ کیا جانا، غلام علی کے پروگرام کی منسوخی اور ان جیسے بیشمار واقعات ہیں جنہوں نے عام لوگوں کو تو اثر انداز کیا ہی ہے سول سوسائیٹی اور ہندوستان کا دانشور طبقہ بھی اس کی چپیٹ میں آیا ہے۔اب یہ خلیج صرف عام لوگوںکے درمیان ہی نہیں رہی بلکہ ظاہری طور پر صحافیوں، تخلیق کاروں، بالی ووڈ اداکاروں وغیرہ کے درمیان بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہے۔اس کی حالیہ مثال انوپم کھیر(سینیر بالی ووڈ اداکار) اور راجدیپ ساردیسائی(مشہور انگریزی صحافی) کے درمیان ٹویٹر پر ہوئی بحث ہے۔واضح ہو کہ انوپم کھیر کشمیری پنڈتوں کے انخلا کے تعلق سے برابر کچھ نہ کچھ ٹویٹ کرتے رہے ہیں۔شیو سینا کے ذریعہ کلکرنی کا چہرہ سیاہ کیے جانے کے بعد دونوں کے درمیان ہوئے مکالمے کے کچھ نمونے نیچے دیے جا رہے ہیں۔۔۔۔
Kulkarni Face Black
Rajdeep: Would be good to know how many Shiv Sainiks have gone to Kashmir to show solidarity with jawans or attended funerals of soldiers. Anupam: How sad that you chose such an insensitive expression to justify your attempt of trying to be a messiah of truth. Rajdeep: Insensitve? Just calling the bluff of those who claim to have monopoly on desh-bhakti. Anupam: What desh-bhakti have u shown towards d mass murder & exodus of your fellow Kashmiri Pandit Indians in so many years? Rajdeep: Sir, raat bahut ho chuki. Good night do baar bol diya. Why don’t we do an open debate on “desh-bhakti” on TV tomw?
راحل کنول’ آج تک’ اور ‘انڈیا ٹوڈے’ نیوز چینل کے اینکر ہیں۔ یہ بظاہر لبرل لگتے ہیں لیکن اگر بغور ان کے مختلف ٹویٹ اور نیوز ایٹم کا معائنہ کیا جائے تو ان کی اصلیت واضح ہو جاتی ہے۔ روِش کمار جو این ڈی ٹی وی کے مشہور نیوز اینکر ہیں صرف اس لئے فیس بک اور ٹویٹر چھوڑے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں لگاتار گالیاں دی جارہی تھیں۔روینا ٹنڈن ایک مشہور فلم اداکارہ ہیں۔ انہیں نے ایک ٹویٹ کیا اوراپنا مذاق بن جانے کی وجہ سے پھر خود ہی ڈیلیٹ بھی کر دیا۔اس وقت تک کسی نے اس کا اسکرین شوٹ (تصویر) لے لیا تھا۔وہ ٹویٹ کچھ اس طرح تھی
Naseeruddin Shah
“Wonder why no writers have ever risen against terrorism or sacrificed returned their awards for the deaths of over 300 people during 26/11″ اب انہیں یہ کون بتائے کہ تخلیق کار وں کو ایوارڈ دہشت گرد نہیں دیتے۔اگر دہشت گردوں نے ایوارڈ دیا ہوتا تو اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے ایوارڈ انہیں واپس کیا جاتا۔ نصیر الدین شاہ بالی ووڈ کا وہ نام ہے جسے شاید ہی کوئی نہ جانتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ انہیںکسی خاص مذہب کا ہونے کی بنیاد پر اپنی وطن دوستی کا ثبوت پیش کرنا پڑے۔ سگرارِکا گھوش، برکھا دت ،رانا ایوب وغیرہ انگریزی کی مشہور خاتون صحافی ہیں۔ سیکولر ہونے کی وجہ سے یہ ہمیشہ ایک گروہ کے نشانے پر ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرے مختلف عوامل نے ایک ایسی فضا قائم کر دی ہے جس کی وجہ سے یہ خلیج اور گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔شاید ان کا یہی مقصد رہا ہو کہ ہندوستانی سماج کو دو حصوں میں منقسم کر دیا جائے ۔ انہیں معلوم ہے کہ غیر متعصب اور غیر جانبدار آواز اس ملک میں موجود ہے جو سنجیدہ بحث پر یقین رکھتی ہے۔لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔وہ اس آواز کو دبانے کے لئے ایک ایسی فوج کھڑی کر رہے ہیں جو لگاتار انہیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پرگالیاں دیتی رہے۔ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اس فوج کے مد مقابل اپنی ایک ایسی فوج نادانستہ طور پر بنا رہے ہیں جو حکومت ،نظام حکومت، عدلیہ اور سماجی نابرابری کے ایشو پر مختلف ایسی چیزیں پیش کر رہا ہے جو” ری ایکشن ”پیدا کرنے والی ہیں۔اس ایکشن اور ری ایکشن کا شکار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہو رہے ہیں۔