تحریر : مسز جمشید خاکوانی سال ڈیڈھ سال کا بچہ ماں کے ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے ماں ہر نوالے پہ بسم اللہ پڑھتی ہے ماں صدقے میرا بچہ پڑھ بسم اللہ الرحمن الرحیم بچہ توتلی زبان میں پڑھتا ہے ماں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اب سوہنے نبی کا کلمہ سنائو بچہ کلمہ پڑھتا ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچے کی فل توجہ سیکھنے پر ہوتی ہے ایک مسلمان کے گھر پیدا ہونے والے ہر بچے کو یہ باتیں سیکھنی چاہییں اور ہر گھر میں ایسا ہوتا بھی تھا نانیاں ،دادیاں پٹائی لگا کر بھی نماز پڑھنا سکھایا کرتی تھیں سر شام بتیاں جلا دی جاتیں مغرب کے وقت اندھیرا اور بچوں کا گھر سے باہر جانا بہت برا سمجھا جاتا اب اس منحوس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مغرب کے وقت لازمی اندھیرا ہوتا ہے اور بچے گھر سے باہر) قران مجید کی لازمی تعلیم ٣ سال ک عمر سے ہی شروع ہو جاتی ،اسکول کے نصاب پر خاص توجہ دی جاتی کہ ابتدا سے ہی بچے کے ذہن میں بنیادی باتیں بٹھا دی جائیں۔
دینیات اور مطالعہ پاکستان لازمی مضامین ہوتے باتوں میں قصے کہانیوں میں ہی بچے کی تربیت ہو جاتی دادی ماں کہانی سناتیں حضرت عبدالقادری علم حاصل کرنے بغداد جا رہے تھے راستے میں قافلے پر ڈاکووں نے حملہ کر دیا سب کچھ لوٹ کر انہیں لڑکا سمجھ کر چھوڑ دیا کہ ان کے پاس کچھ نہ تھا لیکن آپ ڈاکووں کے سردار کے پاس گئے کہ میری ماں نے میری صدری میں چالیس درہم سی دیے تھے وہ آپ کو نہیں ملے سردار حیران کہ جب نہیں ملے تو کیوں بتا رہے ہو کہا میری ماں نے کہا تھا جھوٹ نہیں بولنا تلاشی لی گئی تو واقعی درہم نکل آئے ڈاکووں کے سردار نے سوچا یہ لڑکا اپنی ماں کی نافرمانی نہیں کرتا اور ہم اللہ کے نافرمان ہیں تائب ہو کر اسلام لایا یہ ہوتی تھیں دین اسلام کی تعلیمات جو دلوں پہ اثرانداز ہوتی تھیں تربیت ہمیشہ ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے اور آجکل مائوں کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت ہی نہیں وہ کمائی میں لگے ہیں اور ان کی عمر بھر کی کمائیاں لٹ رہی ہیں جب تک آپ اپنے بچوں کو اللہ رسول اور دین سے محبت نہیں سکھائو گے فلاح کیسے پائو گے؟وہ وقت تھا جب اسلام سے محبت جزو ایمان تھی تو پاکستان سے محبت ایمان کا حصہ، علما کی عزت کی جاتی تھی وہ بھی قوم کی تربیت میں خصوصی دلچسپی لیتے اب کی طرح صرف کمیشن سے مطلب نہیں رکھتے تھے بگاڑ شروع ہی تب ہوا جب عالم بے عمل ہو گئے اور جاہل دانشور بن گئے اکل حلال پر سے ایمان اٹھتا گیا۔
حلال اور حرام میں تفریق جاتی رہی تو ایسے میں عذاب ہی اترتے ہیں اور اس عذاب کی سب سے بڑی شکل ہمارے حکمران ہیں جن کا سارا ن کاروبار پر ہے قوم کس طرف جا رہی ہے کسی کو پرواہ نہیں نصاب میں خطاب میں القاب میں صرف میں ہی میں ہے جن باتوں پر انہیں فوری ایکشن لینا چاہیے وہ ان کی ترجیہات میں ہیں ہی نہیں پاں اپنی دولت پہ آنچ آنے لگے یا اپنی ذات پر تو قوم سے خطاب واجب ہو جاتا ہے ورنہ بڑے سے بڑے سانحے پر ککھ نہیں ہلتا ،سانحہ ماڈل ٹائون ان کی ناک کے نیچے ہوا لیکن کیسی بے خبری تھی اور اب تک کوئی ایکشن نہیں ،اوہاں تو کوئی توہین رسالت نہیں ہوئی تھی بلکہ درود و سلام کی محافل سجی تھیں کس بے دردی سے حاملہ خواتین کو بھی منہ پر گولیاں ماری گئیں ،بزرگ سفید داڑھیوں والے ڈنڈے کھاتے رہے کسی نے چھڑانے کی ہمت نہ کی ،آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں نے کب توہین رسالت کی تھی؟ ان کو چن چن کے مارا گیا استانیوں کو زندہ جلایا گیا کیا قصور تھا ان کا؟بقول مولانا فضل الرحمن دھرنا ختم کرایا جیسے ناک سے مکھی اڑاتے ہیں لیکن کسی کو اس بیان کا نوٹس لینے کی بھی توفیق نہ ہوئی بے رحم سیاست نسلیں چاٹ رہی ہے مشال خان ہمارا کچھ بھی نہیں تھا لیکن وہ ہمارا آنے والا کل تھا وہ گستاخ رسول تھا یا نہیں اس کا تعین تو اب بھی نہیں ہوا لیکن تھا تو کیوں؟ یہی سب سے خوفناک سوال ہے کہ کہاں کمی رہ گئی ہے ہمارے ایمان میں ہمارے کردار میں، ہمارے سلوک میں کہ دنیا کا سب سے محترم دین دل سے محو ہوا تو کیوں؟ پوری قوم پہلے تو اس سوال کا جواب تلاش کرے اور اگر وہ بے گناہ تھا تو اتنا ظلم کیوں ہوا۔
سپیکر پر اعلان ہوتا ہے فلاں شخص نے توہین رسالت کر دی فورا پہنچو یہ سنتے ہی دودھ میں ملاوٹ کرنے والا بھولا گجر،پسی ہوئی مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں ملانے والا علم دین پنساری ،صاحب کو رشوت پہنچانے والا بابو ،چپڑاسی،ساری رات پورن فلمیں دیکھ دیکھ کر ابھی سونے والا سوئیٹی پرنس ،دھندا کرنے والا ساقا کنجر ،کھوتے کا گوشت بیچنے والا ماجھا قصائی بغیر کوئی ثبوت مانگے گستاخ کو واصل جہنم کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں گستاخ تو ہے ہی جہنم کا حقدار لیکن کیا نبی کے فرمان کی نفی کرنے والے جنت کے حقدار ہیں ؟ پیارے نبی ۖ نے فرمایا تھا ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ،اپنے بھائی کا حق مارنے والا جہنمی ہے ،اپنے بھائی کی غیبت کرنے والا اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھاتا ہے جانوروں تک کے حقوق بتائے گئے ہیں اسلام میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے کیا ایسا دین بغیر ثبوت بغیر گواہ کسی کے قتل کی اجازت دیتا ہے ؟ کانٹے بو کر پھولوں کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟ کوئی اس وقعے کو بار بار دہرائے گا کوئی اپنے مطلب کی تاویلیں نکالے گا کوئی اس کے حق میں کوئی اس کے خلاف دلائل دے گا لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوگی کہ سچ سامنے لائے اسلام کو بدنام کرنے کی جسارت کو ناکام بنائے کیا ابھی کچھ باقی ہے؟ آج بھی ایک تصویر لگی تھی ایک فاقہ ذدہ ماں اور دو معصوم بچوں کی جن کے چہرے بھوک سے نچڑے ہوئے تھے اس ماں نے دونوں بچوں کو مار کر خودکشی کر لی ابھی تو وہ بچے چھوٹے تھے صرف کھانا مانگتے ہونگے اور ماں نے حوصلہ ہار دیا ابھی ان کی تعلیم تو شروع ہی نہیں ہوئی اتنی مہنگی تعلیم کر دی ہے۔
ظالموں نے کہ ا سے بہتر ان کو بھیک مانگنا لگتا ہے جو ماں اپنا جسم بیچ کر اپنے بچے کے منہ میں حرام کا نوالہ ڈالے گی وہ خیر کی توقع کیسے رکھ سکتی ہے وہ جسم صرف جہنم کا حقدار ہے جسنے رزق حرام کا ایک بھی نوالہ کھایااور ہم تو دن رات حرام کھا رہے ہیں کبھی جانتے ہوئے بھی اور کبھی انجانے میں خدارا حکمرانو کچھ تو احساس کرو اربوں روپے کے سڑکیں اور اورنج ٹرین بنائو لیکن غریبوں کے گھروں میں جھانک کر بھی دیکھو کون اس نظام کی وجہ سے باغی ہو رہا ہے کس نے خود کش جیکٹ پہن لی ہے کون خود کشی کی حرام موت مر رہا ہے کس کی ماں ،بہن ،بیٹی اپنی عزت بیچ کر کھانا لا رہی ہے ان کا جواب بھی تمہیں ہی دینا ہے تم نے تو آج تک سانحہ بلدیہ ٹائون کے جلے ہوئے جسموں کا بھی جواب نہیں دیا یہ قوم ہر سانحے کی اصل رپورٹ کی منتظر ہے اور تم فیصلوں کی آڑ میں محفوظ ہو لیکن کب تک؟ ایک بجلی چھین کر تم لوگوں نے ڈپریشن اور وحشت کے مریض بنا دیے عوام کو اور ڈپریشن انسان کو پاگل کر دیتا ہے اور پاگل تو کچھ بھی کر سکتا ہے اس کو کون سمجھائے گا وہ وضو کر کے بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں تو اب رہی نہیں اب تو مسابقت کی دوڑ میں لگے جوڑے ہیں موبائل اور نیٹ پہ پلتے بچے ہیں کاروبار میں لگے حکمران ہیں ،پرموشن کی دوڑ میں لگے افسران ہیں اور ذلت کی پاتال میں اترتے مسلمان ہیں ہم تو خوفزدہ لوگ ہیں جن کو خوف ہے کہ ہماری اگلی نسل کا کیا ہو گا۔