تحریر : صبا نعیم وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت نیشنل ایکشن پلان سے متعلق منعقدہ سیاسی و عسکری قیادتوں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر میں شرپسند عناصر کیخلاف کارروائیاں مزید تیز کی جائیں گی۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کی جانب سے گزشتہ روز ہونیوالے واقعہ کی مذمت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کی سلامتی’ وقار اور قومی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائیگا اور کسی کو بیرون ملک بیٹھ کر کراچی کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اجلاس میں اس بات کا عزم کیا گیا کہ پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرنیوالوں کو اسکی قیمت چکانا پڑیگی۔ اجلاس میں الطاف حسین کیخلاف باضابطہ طور پر کارروائی کیلئے برطانوی حکومت سے سفارتی رابطوں پر بھی غور کیا گیا۔
اس سلسلہ میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے برطانوی وزارت داخلہ کے حکام سے رابطہ کرکے انہیں کہا ہے کہ وہ سنگین جرم میں ملوث ”شخص” کو قانون کے دائرے میں لانے کیلئے معاونت کریں۔ انہوں نے الطاف حسین کی تقریر پر تشویش کا اظہار کیا اور برطانوی حکام کو بتایا کہ ہجوم کو ہنگامہ آرائی پر اکسانے کیلئے برطانوی سرزمین کا استعمال قابل مذمت ہے۔ چودھری نثار نے کہا کہ الطاف نے اپنی تقریر میں پاکستان اور پاکستانی اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی کی جس سے عوام کی دل آزاری ہوئی۔ انکے بقول الطاف حسین نے پوری قوم بالخصوص پاکستان کی ہتک کرکے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ پاکستان کیخلاف بولنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا’ اب اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کیخلاف قانون کے مطابق بھرپور کارروائی کی جائیگی۔
الطاف حسین برطانوی شہری ہونے کے ناطے لندن میں بیٹھ کر گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے ٹیلی فونک خطابات کے ذریعے پاکستان کے آئینی اداروں’ افواج پاکستان’ عسکری قیادتوں اور بانیان پاکستان تک کیخلاف ہرزہ سرائی کررہے تھے جبکہ ایسی شرانگیزی کے اگلے ہی لمحہ بعد معافی مانگنا بھی انہوں نے اپنا معمول بنائے رکھا۔ چونکہ وہ ایم کیو ایم متحدہ کو لندن سے ہی کنٹرول کرتے اور چلاتے ہیں اس لئے انکی ساری ہرزہ سرائی ایم کیو ایم کے کھاتے میں ہی پڑتی رہی۔ انہوں نے جب متحدہ ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور وہاں سے بھارتی ساختہ اسلحہ سمیت ”را” کے تربیت یافتہ متحدہ کے کارکنوں کی حراست پر ہذیانی کیفیت میں عسکری قیادتوں اور رینجرز حکام کو دھمکیاں دیں تو حکومت نے ان کیخلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے انکے ٹیلی فونک خطاب اور انکے بیانات پر پابندی عائد کردی جبکہ ان کیخلاف مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی جانب سے فوجداری مقدمات بھی درج کرادیئے گئے۔ یہ صورتحال پاکستان میں موجود ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان کیلئے بھی پریشانی کا باعث بنی اور وہ دفاعی پوزیشن پر آگئے۔
MQM
ایم کیو ایم متحدہ چونکہ اس وقت کراچی میں مقبول عوامی جماعت کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جسے دیوار سے لگانے کے اقدامات کے باوجود اسکی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی اور اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات سے لے کر بلدیاتی انتخابات تک متحدہ کے امیدواروں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے اور سخت آزمائش کی موجودہ صورتحال میں بھی متحدہ نے کراچی لارڈ میئر کے انتخاب کا معرکہ مارلیا ہے اس لئے اسے سیاسی طور پر ختم کرنے کی کسی جبری کوشش سے کراچی میں مزید انتشار کی فضا پیدا ہو سکتی ہے چنانچہ متحدہ رابطہ کمیٹی کے ارکان کو دانشمندی سے کام لے کر متحدہ کی سیاست کو الطاف حسین سے الگ کرلینا چاہیے تھا تاکہ متحدہ کے ووٹ بنک کو برقرار رکھا جا سکے مگر ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے دوسرے ارکان نے گومگو سے کام لیتے ہوئے متحدہ کو الطاف حسین سے الگ کرنے سے گریز کیا اور انکی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے رہے۔
جبکہ اسی دوران متحدہ کے جلاوطن رہنمائ مصطفی کمال اور انیس خان قائم خانی ملک واپس آگئے اور انہوں نے الطاف حسین اور متحدہ مخالف سیاست کا آغاز کردیا جس کیلئے انہوں نے پاک سرزمین پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت بھی تشکیل دے دی۔ متحدہ کو دیوار سے لگانے کی ان کوششوں کے باوجود الطاف حسین نے سیاسی معاملہ فہمی سے کام لینے کے بجائے جارحانہ طرز عمل برقرار رکھا اور چار روز قبل کراچی میں متحدہ کے بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکائ سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے جہاں انہوں نے پاکستان کیخلاف انتہائی توہین آمیز الفاظ استعمال کئے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے وہیں اپنے کارکنوں کو میڈیا ہائوسز پر حملوں کیلئے اشتعال بھی دلایا چنانچہ ان کارکنوں نے مختلف میڈیا ہائوسز میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور وہاں موجود میڈیا ورکرز کو ہراساں بھی کیا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ الطاف حسین کا یہ اقدام بلاشبہ پاکستان سے غداری کے زمرے میں آتا ہے چنانچہ ملک بھر میں ہر شعبہ? زندگی کی جانب سے ان کیخلاف سخت ردعمل سامنے آیا۔ تمام سیاسی’ دینی قیادتوں نے انکی مذمت کی اور ان کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ قومی اور سندھ اسمبلی میں ان کیخلاف قراردادیں پیش ہوئیں۔
جبکہ پنجاب اسمبلی نے ان کیخلاف کارروائی کیلئے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور پی ٹی آئی کے قائد عمران خان سمیت سب سیاسی قائدین الطاف حسین کیخلاف کارروائی کیلئے بیک زبان نظر آئے اور گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی یہ دوٹوک اعلان کردیا کہ کسی کو پاکستان کیخلاف نہیں بولنے دینگے اور قانون کو بہرصورت اپنا راستہ بنانا ہوگا۔ الطاف حسین کی ہرزہ سرائی پر یقیناً قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے جس کیلئے لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر بھی کی جاچکی ہیں اور اسی طرح لندن میں الطاف حسین کیخلاف کارروائی کیلئے وزیر داخلہ چودھری نثار نے برطانوی حکومت سے بھی رجوع کرلیا ہے۔ ان کیخلاف بہرصورت قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ وہ کسی رورعائت کے مستحق نہیں ہیں تاہم انکی بدخصلتی کی سزا عوام میں مقبولیت حاصل کرنیوالی ایم کیو ایم متحدہ کو نہیں ملنی چاہیے۔ اس کیلئے متحدہ رابطہ کمیٹی اور ڈاکٹر فاروق ستار کو’ جن کے نام پر یہ پارٹی رجسٹرڈ ہے’۔
Altaf Hussain
بہرصورت الطاف حسین کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان سے متحدہ کے راستے الگ کرنے ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے دوسرے ارکان نے اپنی پریس کانفرنس میں اگرچہ ایم کیو ایم کو الطاف حسین سے الگ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب ہم ایم کیو ایم کے فیصلے خود کرینگے تاہم انہوں نے الطاف حسین کی ہرزہ سرائی پر انکی مذمت سے گریز کیا اور یہ کہہ کر انکے دفاع کی کوشش کی کہ ہو سکتا ہے انہوں نے قابل اعتراض باتیں کسی ذہنی دبائو کے تحت کی ہوں۔ اس تناظر میں بعض حلقے ڈاکٹر فاروق ستار کی پینترہ بدلتی ہوئی سیاست کو الطاف حسین کی رضامندی سے کی گئی سیاست سے تعبیر کررہے ہیں اور انکی رائے میں الطاف حسین نے متحدہ کو کسی قانونی کارروائی سے بچانے کیلئے رابطہ کمیٹی کے ارکان کو وقتی طور پر ان سے الگ راستہ اختیار کرنے کا کہا ہے۔
اس کا عندیہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے دوسرے ارکان کے رویوں سے بھی ملتا ہے جبکہ لندن میں موجود رابطہ کمیٹی کے ارکان واسع جلیل اور مصطفی عزیزآبادی نے بھی فاروق ستار کی پریس کانفرنس پر اپنے ردعمل میں اعلان کیا ہے کہ الطاف حسین ہی متحدہ کے قائد ہیں اور پاکستان میں موجود قیادت لندن کی مشاورت کے بغیر کوئی بڑے فیصلے نہیں کر سکتی جس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوگیا ہے کہ ایم کیو ایم کو الطاف حسین سے الگ کرنے سے متعلق فاروق ستار کے اعلان کے باوجود اسکی قیادت الطاف حسین ہی کے پاس ہے اور مائنس الطاف کا کوئی فارمولا اس پارٹی میں اب تک قابل عمل نہیں ہو پایا۔ متحدہ کے ذرائع اسی تناظر میں باور کرا رہے ہیں کہ فاروق ستار کا علیحدگی کا اعلان محض معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش ہے۔ اس صورتحال میں ایم کیو ایم متحدہ کے بھی قانونی کارروائی کی لپیٹ میں آنے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا اس لئے گیند اب فاروق ستار ہی کی کورٹ میں ہے۔
Politics
اگر وہ متحدہ کو الطاف حسین سے الگ کرنے کے باوجود انکی ہرزہ سرائی پر انکی دوٹوک الفاظ میں مذمت نہیں کرتے اور پارٹی امور میں ان سے ہدایات لینے کا سلسلہ برقرار رکھتے ہیں تو وہ اور انکے ساتھی الطاف حسین کی سیاست ہی کا حصہ قرار پائیں گے۔ اس صورتحال میں ایم کیو ایم متحدہ کو بچانے کیلئے اصل امتحان فاروق ستار کی فہم و فراست کا ہے۔ اگر وہ گومگو والا منافقانہ طرز عمل برقرار رکھتے ہیں تو پھر متحدہ پر قانونی پابندی کا اقدام روکنا مشکل ہوگا اور اس بنیاد پر متحدہ کی سیاسی موت بھی کسی المیئے سے کم نہیں ہوگی۔