تحریر : شاہ بانو میر اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ شاہ بانو میر ادب اکیڈمی اغراض ومقاصد آج سے دو سال پہلے کی بات ہے کہ شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کا خیال ذہن میں آیا کئی روز سوچا ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا جو زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا علم کی نشونما کے لئے مگر کوئی امید مبہم تھی جو بار بار کسی نو مولود بچے کی طرح ہُمک ہُمک کر میری طرف آنا چاہ رہی تھی جو شائد نادیدہ زبان میں مجھےکہہ رہی تھی کہ یہ کرو اس کی ضرورت ہے ٬ اس ملک کو اس کے لوگوں کو ٬ کبھی یہ خواہش مجھے روٹھے ہوئے اس نونہال کی مانند لگتی جو پیاری سی بُلیاں بنا کر مجھے متوجہ کر رہا ہو کہ بس سوچنا چھوڑو کون ساتھ ہے کون نہیں کون آتا ہے کون نہیں بس اللہ کا نام لو اور کاغذات کا انبار یا پُلندہ منگوا کر آغاز سفر کرو٬ علم کا سفر زندگی میں بہت طویل طے نہ کرنے کا گِلہ ہمیشہ کچھ اپنوں سے رہا ٬ اسی کے ازالہ کے لئے کچھ نہ کچھ مثبت سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رکھا۔ لہٰذا ہر خدشے کو ہر خوف کو پرے پھینک کر پہلے سنگ میل کی جناب قدم بڑھا دیے ٬ آپ کے کاغزات کے مطالعے سے یہ پتہ چلا ہے کہ آپ صرف پاکستانی کموینٹی کی خواتین کیلیے کام کرناچاہتی ہیں ٬ جبکہ ہم لوگ تو ایسوسی ایشنز کو اس لیے متعارف کرواتے ہیں کہ یہ فرانس کلچر کو بڑے پیمانے پر متعارف کروا سکیں۔
محدود سوچ کیلیۓ ایسوسی ایشنز نہیں بنائی جاتیں٬ آپ اپنی خواتین کے ساتھ مل کر کس قسم کے پروگرامز کرنا چاہتی ہیں؟ یہ سوالات تھے ہمارے شہر کی تمام ایسوسی ایشنز کی صدر کے٬ میں نے تحمل سے اس کے سوالات سنے اور پھر کہا٬ محترمہ آپ لوگ بڑی سوچ کے ساتھ بڑے مقاصد لے کر مختلف قومیتوں کیلیۓ کام کر سکتے ہیں کیونکہ آپ وہ لوگ ہیں جو خود شناسی سے آگاہی کا عمل انقلاب فرانس کے بعد شروع کر چکے ہیں لیکن افسوس کہ ابھی میری یہاں موجود خواتین کی ایک بڑی تعداد کو اپنی ذات کا شعور نہیں ہے وہ کسی دوسرے کا شعور کیا کریں گی خصوصا کسی قوم کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پے کام ابھی ناممکن ہے۔ آپ نے اپنے مسائل حل کیے پھر وافر آمدنی کے اچھے استعمال کے لیے آپ کی سوچ نے ہم جیسے غریب ممالک کی طرف آپکی رسائی کی ٬ لیکن میں اپنی ان خواتین کو پہلے خود ان کے بارے میں اس کے بعد ان پروگرامز کے ذریعے ان کے ملک کی افادیت اور مسائل سے آگاہی دینے کے بعد اس قدر آگے سوچ سکوں گی کہ دوسری قوموں کے ساتھ مل کر ہم کام کریں ہمممم وہ گہری نظروں سے میر بیان کو میرے چہرے کے تاثرات سے ٹٹول رہی تھی ٬ مگر نہ تو نیت میں کھوٹ تھی اور نہ کاغذات میں ٬ نہ ہی مستقبل کے اُس عمل میں جو کرنا تھا۔
اس لئے پُرسکون انداز میں اپنا مدعا سمجھایا٬ میں آپ سے کسی قسم کی مالی مدد کی خواہش نہیں رکھتی کیونکہ میرا اصل مسئلہ ہال ہے جو آسانی سے نہیں ملتا٬ لیکن باقاعدہ رجسٹریشن سے ہمیں ہال مل سکتا ہے ٬ اس کے علاوہ مجھے آپ کی کوئی مالی اعانت نہیں چاہیے٬ میں نے ایک لمحے کیلئے سوچا کہ شائد وہ ہمارے کاغذات مسترد کر دے ٬ وہ اس کا حق رکھتی تھی اور ہمارے خیالات ان کے اس طریقہ کار سے متصادم تھے جو وہاں رائج تھے اور شائد میرا اندازِ گفتگو بھی اس سے ہٹ کر تھا جو بِالعموم ہمارے لوگ وہاں جا کر جس کا مظاہرہ کرتے ہیں للجلایا ہوا اور بیچارگی سے بھرا ہوا۔ ہر کموینٹی کی خواتین یا مرد حضرات جو جو ایسوسی ایشن بناتے وہ بلا چوں چراں کیے ان کے سامنے اپنا سر جھکا دیتے اور ہر پروگرام اُسی طرح کرتے جیسے اِن کو پسند ہو ٬ ناچ گانا ہلہ گلا اور کھانا پینا ٬ کیونکہ انہیں کونسل ہال سے مالی اعانت کی ضرورت ہوتی ہے ٬ جبکہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا جذبے مضبوط تھے اور بہت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اللہ کا کرم ساتھ رہا تو انشاءاللہ کام کرنا قطعی طور پے مشکل نہیں ٬ کیونکہ ایک مضبوط ترین ذہین ترین ٹیم میری پشت پے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے حیرت و استعجاب سے میں گُنگ رہ گئی جب اُس نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر میری جانب اپنا ہاتھ بڑہایا اور فوٹو گرافر کو اشارہ کیا کہ وہ میری اور اُس کی تصویر بنائے ٬ فائل میں موجود کاغذات پے وہ سائن کر کے اب ہاتھ میں لیے کھڑی تھی کہ باقاعدہ تصویری ثبوت کے ساتھ مجھے تھما دے٬ ایک نظر چھوٹی سی کھڑکی سی اُس بلند وبالا آسمان و زمین کے مالک کی جانب ڈالی ٬ دل ہی دل میں اس غیر یقینی عمل پر یقین کرتے ہوئے کھڑے ہوئی اور مسکرا کر ہاتھ ملایا اگلے لمحے وہ فائل جس میں اکیڈمی کی تشکیل کا عمل درج تھا میری دسترس میں تھی۔
Islamic Academy
اکیڈمی بنتے ہی سب سے پہلے اس میں جن کی شمولیت ہوئی وہ تھیں محترمہ وقار النساء صاحبہ بہترین ادبی ذوق رکھنے والی درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہنے والی جو اب کچھ عرصہ سے گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے قدرے الگ تھلگ تھیں ٬ وہ میرے جنون کو جان چکی تھیں اس لئے مختلف قسم کے ابِہام اور وسوسوں سے نکل چکی تھیں ٬ سچائی اپنا آپ منوا کر رہتی ہے ٬ یہ رہتی ہمیشہ تنہا ہے لیکن طاقت لاکھوں کروڑوں کی اپنے اندر رکھتی ہے٬ موجودہ دور میں تنِ تنہا عمران خان اس کی جیتی جاگتی مثال ہے٬ بہر کیف وقار جی کے ساتھ باقاعدہ گفتگو ہوئی اور ایک میگزین کا سوچا گیا ٬ بہت سے مسائل اور دشوار ترین مراحل سے نبرد آزما ہوتے بلآخر اکیڈمی کامیاب ہو گئی پہلا پرنٹ میگزین پبلش کرنے میں”” دُر مکنون “” جس کو بھرپور پزیرائی ملی٬ آج بھی جو لوگ اسے پا سکے وہ کہتے ہیں کہ کئی کئی بار پڑھا ہے لیکن پھر دیکھتے ہیں تو کھول لیتے ہیں٬ یہی اصل کامیابی ہے کسی میگزین کی جو الحمد للہ “” در مکنون “” کو ملی٬ سفر اُس وقت حسین موڑ پے آگیا٬ جب بالکل ڈرامائی انداز میں خواتین کی ایک مکمل ذہین لکھاری ٹیم کسی نعمتِ کے طور پے اللہ نے اکیڈمی کو عطا کر دی٬ بہنوں جیسی محبت سادگی تصنع سے پاک ٬ حب الوطنی کے سچے جزبے سے سرشار ٬ بغیر کسی لاگ لپٹ ٬ گوہر نایاب قابلیت کے مقناطیس سے ٹکرا کر یوں باہم جُڑے کہ “”شاہ بانو میر ادب اکیڈمی “”
وقار النساء صاحبہ کا تفصیلی تعارف اوپر دے دیا گیا٬ ممتاز ملک معروف شاعرہ کالمسٹ بہترین مقررہ باکمال خاتون نگہت سہیل طنزو مزاح لکھنے میں اپنی الگ پہچان کی مالک ہیں٬ وقار النساء صاحبہ کا تفصیلی تعارف اوپر دے دیا گیا٬ انیلہ احمد حساس طبیعت رکھنے والی ایسی پُرسوز تحریر سامنے لاتیں ہیں کہ پتھر دل بھی پگھل جاتا ہے٬ باقاعدہ ایک ادارہ بن کر اپنی تکمیل کو پہنچ گئی٬ آج یہ خواتین تقریبا 4 ویب سائٹس پے اپنے قلم کے جوہر ہر اہم خبر پے آرٹیکل کی صورت پیش کر رہی ہیں٬ گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو کر اپنی علمی تشنگی کوبہترین روپ مین لفظوں کی لڑیوں میں پِرو کر کہیں قہقہے بکھیرتی ہیں طنز و مزاح کی صورت کہیں بنتِ حّوا کی ازلی بد نصیبی پے نوحہ کِناں دکھائی دیتی ہیں٬ کہیں حساس موضوعات پے جو کرب ذہن نے محفوظ کیا اس کی شاندار عکاسی کرتی ہیں ٬ تو کہیں ببانگِ دہل مردوں کی اجارہ داری کی اس دنیا میں اپنے مضبوط احتجاج کو لفظوں کے ذریعے بہترین پیرائے میں ڈھال کر آرٹیکلز کی صورت نمودار ہوتا ہے٬ یہ اکیڈمی نہیں ہے یہ ہم سب کا وہ پیارا پاکستان ہے ٬ جس کا نام تو ہم سب لیتے ہیں بڑھ چڑھ کر باتیں بھی بناتے ہیں لیکن تلخ حقیقت ہے کہ اس ساری بھاگ دوڑ کے پیچھے اکثریت کی سوچ صرف نمود ونمائش اور ذاتی تشہیر کے سوا کچھ بھی نہیں ٬ نیت کا پھل آج بکھرا اجڑا برباد پاکستان ہمارے سامنے قلم کا یہ سفر ان بہترین لکھاری خواتین نے بڑے عزم حوصلے سے شروع کیا ہے۔
ایک سے ایک اچھوتا خیال ایک سے ایک جدت توجیہ نثر کے ساتھ شاعری بھی ان خواتین کی الگ خُدا داد صلاحیت ہے ہم نے کبھی ان شہ پاروں کی قدر نہیں کی جو ہمیں بیٹھے بٹھائے مل جاتے ہیں ٬ نہ ہی اعلیٰ معیاری دماغ کی افادیت کو جسموں کے انبار پے تسلیم کیا ہے٬ لیکن آنہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے اب ہمیں سچ بولنا ہے کام کو معیار پے پرکھنا ہے ٬ ملک و قوم کے لئے دن رات سوچ کر لکھنے والی یہ خواتین اہلِ وطن سے عزت اور احترام چاہتی ہیں تا کہ ان کا قلم پُرسکون اور روانی سے آپ کی جانب مدح سرائی کی کشادہ ہموار شاہراہ پے فراٹے بھرتا ہوا اس ملک کے لیے وہ کام کر دکھائے ٬ جس کی اس ملک کو ہمارے پیارے پاکستان کو اشد ضرورت ہے٬ اپنے حصے کا کام کر کے جانا ہے یہی سوچ یہی جزبہ لے کر یہی اغراض و مقاصد لے کر شاہ بانو میر ادب اکیڈمی معرضِ وجود میں آئی ہے ٬ اکیڈمی کی خواتین کا قلم آپکو نشتر کی طرح معاشرے کے ناسوروں کو کاٹ کر مرہم لگا کر بہتری کرتا دکھائی دے گا٬ سلام ہے!!! ان خواتین کو اور ان کے جذبہ حب الوطنی اور آہنی سوچ رکھنے والے ذہن کو ٬ اس وقت جسموں کے انبار نہی پاکستان کو دماغ چاہیے ٬ آئیے مل کر کوشش کریں اور اپنے اپنے ہُنر کو ہر پلیٹ فارم سے مادرِ وطن کے لئے وقف کرے ہوئے اس کے وقار کو سربلند کریں ٬ آئیے ہمارے ساتھ ٬