لاہور (جیوڈیسک) سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد محمد صفدر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ملنے والی رہائی کے بعد لاهور پہنچ گئے۔ تینوں افراد ایک خصوصی طیارے کے ذریعے راول پنڈی سے لاهور پہنچے۔
عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف خود راول پنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچے اور اپنے بھائی، بھتیجی مریم نواز اور محمد صفدر کو لے کر صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاهور پہنچے۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی آمد سے قبل مسلم لیگ ن کے کارکن لاهور کے ایئر پورٹ پہنچ چکے تھے۔ جنہوں نے اپنے قائد کا استقبال کیا اور انہیں قافلے کی صورت میں ایئرپورٹ سے رنگ روڈ کے ذریعے جاتی امرا روانہ کیا۔
کارکنوں کی جانب سے نواز شریف کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ اس موقع پر نواز شریف بھی ہاتھ ہلا کر لیگی کارکنوں کو جواب دیتے رہے۔
لاهور کے علاقے جاتی امرا میں نواز شریف کے پہنچنے پر بھی مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے نواز شریف کے حق میں نعرے لگا کر اور پھولوں کی پتیوں سے ان کا استقبال کیا۔
نواز شریف کی رہائی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ بیگم کلثوم نواز کے بعد عدالتی فیصلے کا آنا شریف خاندان کے لئے ایک ریلیف ہے۔ بیگم کلثوم کے انتقال کی وجہ سے شریف خاندان مشکل وقت سے گذر رہا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ نواز شریف کی رہائی بارے عدالتی فیصلے کےقانون پہلوؤں پر کوئی رائے نہیں دے سکتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیلوں کے مراحل ابھی باقی ہیں۔
نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی رہائی بارے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے راہنما حمزہ شہباز نے لاهور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی سو سے زائد پیشیاں ہوئیں۔ عدالتی فیصلے پر ن لیگ اللہ کا شکر ادا کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج خوشی کا دن ہے ہمارے قائد کو جیل سے رہائی ملی ہے۔ یہ فیصلہ احتساب عدالت میں لکھا گیا تھا نوازشریف کے خلاف کرپشن ثابت نہیں ہوئی وقت ثابت کرے گا کیس میں کچھ نہیں ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو دس سال قید، ایک ارب انتیس کروڑ روپے جرمانہ، اُن کی بیٹی مریم نواز کو سات سال قید، بتیس کروڑ روپے جرمانہ اور محمد صفدر کو بھی ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ شریف فیملی کے لندن میں موجود ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بحقِ سرکار ضبط کیے جائیں۔ تینوں مجرمان کو گیارہ ستمبر کو بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے باعث پانچ روز کے لیے پرول پر رہا کیا گیا تھا۔ پرول کا وقت ختم ہونے پر انہیں دو دن قبل واپس اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
اس سے قبل رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت مرکزی قیادت نواز شریف کو لینے کے لئے جیل پہنچے، جیل حکام کو نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کی رہائی کی ’روبکار‘ مل گئی، جو ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اسلام آباد ہائی کورٹ نے جاری کی تھی۔
اڈیالہ جیل میں شہباز شریف کی اپنے بڑے بھائی سے ملاقات سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے دفتر میں ہوئی۔ نواز شریف نے کہا کہ ’’مجھے یقین تھا کہ میں بے گناہ ہوں‘‘۔ سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’’میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میرا ضمیر مطمئن تھا۔ اللہ حق اور انصاف کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔
نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے ساتھ خصوصی طیارے پر لاہور روانہ ہو گئے۔
بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں پر سماعت کی۔
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے دلائل اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے جوابی دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نواز شریف، مریم اور صفدر کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے تینوں ملزمان کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ تینوں ملزمان کی اپیلوں پر حتمی فیصلے تک احتساب عدالت کا حکم معطل رہے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر نے تینوں کے ضمانتی مچلکے جمع کرادئیے۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سمیت رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد احتساب عدالت کے اندر اور باہر موجود تھی۔
فیصلے کے بعد تینوں کو جیل سے رہا کردیا گیا۔ تینوں افراد خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور روانہ ہوگئے۔ رہائی کا حکم آنے کے بعد (ن) لیگی کارکنوں نے زبردست جشن منایا، ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور مٹھائیں بھی تقسیم کیں۔
قبل ازیں، دوران سماعت ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ نیب لندن فلیٹس سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ لیکن، پراسیکیوٹر نیب کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ فلیٹس نواز شریف کے ہیں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر نیب سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مریم کے نام فلیٹس بنائے؟ اکرم قریشی نے کہا کہ ’’جی ہاں، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے‘‘۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’’تو پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتادیں۔ ہم کیسے فرض کریں جب آپ کی تفتیش کے بعد بھی نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں بن پارہا۔ نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آرہا، آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کرلیں۔ کیا ہم فرض کرلیں کہ بچے چھوٹے ہیں تو مالک والد ہوگا؟‘‘
نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا کہ بار ثبوت مجرموں پر تھا کہ وہ بتائیں فلیٹس کیسے بنائے؟ والد کو بچانے کے لیے مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ تیار کی، قانون کہتا ہے کہ جب فلیٹس ان کے قبضے میں تھے تو ملکیت بھی وہ بتائیں، جب بچے کم عمر تھے تو فلیٹس کے مالک نواز شریف ہیں۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ’’آپ کا مؤقف ہے کہ 1993ء میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے۔ آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔ تو مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا؟‘‘
جسٹس گل حسن نے کہا کہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے اگر اثاثے چھپائے گئے تو اثاثے بنانے میں سزا کیسے ہوئی؟ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ بچوں کی آمدن کے ذرائع بن نہیں رہے تھے تو مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی، نواز شریف کو بچانے کے لیے مریم نواز نے یہ جعلی معاہدہ بنایا، مریم نواز نے نیلسن اور نیسکول کی ملکیت تبدیل کر کے والد کی ملکیت چھپائی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’’آگے چلیں۔ یہ تو مفروضوں پر مبنی ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ نواز شریف نے فلیٹس خریدے، تو مریم اور نواز شریف دونوں مالک کیسے ہو سکتے ہیں؟ فرض کرلیں کہ مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جے آئی ٹی اور احتساب عدالت میں جمع کرائی۔ اگر جرم جعلی ٹرسٹ ڈیڈ ہے تو اسے آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر سزا کیسے ہوئی؟‘‘
پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ’’آپ سارے سوالات مجھ سے ہی پوچھ رہے ہیں۔ کچھ سوالات نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے بھی پوچھ لیں؟‘‘ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’آپ سے یہ سوالات اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے یہ تمام کہانی بنائی۔ آپ نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے نواز شریف کا دور سے کوئی تعلق بنے‘‘۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی ہے جب کہ حسین اور حسن نواز کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔