اڈیالہ جیل : اہلکار کے ہاتھوں توہین مذہب کا ملزم قتل

Jail Persion

Jail Persion

اسلام آباد (جیوڈیسک) پولیس اہلکار نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں عیسائی پادری ظفر بھٹی کو قتل اور ذہنی مریض 70 سالہ محمد اصغر کو زخمی کر دیا۔

پاکستان میں عیسائی اقلیت کے حقوق کے لیے سرگرم ظفر بھٹی کا ٹرائل جاری تھا جہاں 2012 میں ایک مذہبی رہنما نے ان پر حضرت محمدﷺ کی والدہ کے حوالے سے موبائل پر توہین آمیز پیغام بھیجنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ظفر کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ فون کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔

ان کے اہلخانہ نے پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ’لائف فار آل‘ کو بتایا تھا کہ ظفر کو قید میں موجود ساتھیوں اور گارڈز نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی تھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے رکن زیویئر ولیمز نے کہا کہ یہ انتہائی سفاکانہ عمل ہے، انہیں دھمکیاں دی گئیں، عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ پولیس کو بھٹی کی حفاظت کے حوالے سے احکامات جاری کرتی۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو جھوٹے الزام لگا کر قتل کرنا عدالتی نظام کا مذاق اڑانے جیسا ہے، معصوم لوگوں کی جان کی حفاظت کرنے والے ہی ان کے شکاری بن گئے ہیں۔ ستر سالہ اصغر کو 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا، ان پر نبوت کا دعویٰ کرنے کا الزام تھا اور ان کے کرایہ دار نے اس سلسلے میں عدالت میں ان کے لکھے گئے خط پیش کیے گئے تھے جس کے بعد جنوری میں موت کی سزا سنائی گئی۔

رائٹرز کو اصغر کے وکیل کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق اصغر کو اس سے قبل برطانیہ میں ذہنی حالت کی خرابی کے ایکٹ کے تحت برطانیہ میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ذہنی مریض قرار دیا گیا تھا۔ ان کے وکلا کو ٹرائل کے آخری مہینوں میں عدالت میں حاضری سے روک دیا گیا تھا جبکہ قانونی ادارے نے حملے کے ڈر سے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔

پاکستان کے قانون کے تحت توہین مذہب یا رسالت کی سزا سزائے موت ہے۔ اسلام آباد کے سینٹر آف ریسرچ اینڈ اسٹڈیز کے مطابق رواں سال توہین مذہب کے متعدد الزامات سامنے آئے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ الزامات ذاتی عناد یا جائیداد پر قبضے کی غرض سے عائد کیے جاتے ہیں۔ توہین مذہب کے الزامات کی عدالتی جنگ لڑنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ قانون کے تحت ابھی تک توہین کی صحیح تشریح نہیں کی گئی، اس حوالے سے پیش کیے جانے والے ثبوت بھی اکثر اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتے ہیں۔

توہین مذہب یا رسالت کے ملزمان کو اکثر قتل کردیا جاتا ہے جبکہ ایسے ملزمان کا مقدمے لڑنے والے وکلا پر بھی حملوں کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ’لائف فار آل‘ کے مطابق توہین مذہب کے 48 ملزمان کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، ان میں سے سات افراد کو قید یا عدالت کے باہر قتل کیا گیا۔