خیبر پختونخوا (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے خیبر ضلع کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے عادل رحمان آفریدی 12 مارچ تک ایک معمول کی زندگی گزار رہے تھے لیکن بارہ مارچ کو چڑھنے والے بخار نے ان کی زندگی کے تجربات کو بدل کر رکھ دیا۔
23 سالہ دوائیوں کے تاجر عادل نے اس بخار کو معمولی لیا اور اپنے محلے پیر دل کے ایک ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔ بخارکی شدت میں کمی نہیں ہوئی تو اس نے دوسرے ڈاکٹر کی کلینک کا رخ کیا لیکن بخار کیا بہتر ہوتا اچانک گلہ بھی خراب ہونے لگا اور پھر چوتھے دن سانس میں بھی تکلیف ہونے لگی۔ سانس کی تکلیف کے ساتھ ہی میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں، عادل نے گفتگو میں کچھ توقف کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ”میں نے سنا ہوا تھا کہ جو کرونا میں مبتلا ہوجائے تو اس کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر پہلے مجھے نارتھ ویسٹ ہسپتال حیات آباد پشارو لایا گیا، جہاں ڈاکٹرز نے میری ٹریول ہسٹری کا پوچھا اور میری علامات کودیکھتے ہوئے مجھے پولیس اسپتال پشاور لایا گیا، جہاں مجھے بتایا گیا کہ مجھے کرونا ہے۔‘‘
کیا بیماری کا سن کا خوف طاری ہوا، اس سوال پر عادل نے بتایا، ”مجھے بخار اتنا شدید تھا اور میرے جسم میں درد اتنا سخت تھا کہ میں اس بارے میں سوچ ہی نہیں سکا۔ جب درد کچھ کم ہوا تو مجھے بیماری سے زیادہ اس بات کا خوف تھا کہ اگر میں مرگیا تو میری صورت بھی کسی کو دکھائی نہیں جائے گی۔ میرے گھر والے میرا آخری دیدار نہیں کر پائیں گے اور میرا نماز جنازہ اور تدفین میں بھی کوئی نہیں ہوگا۔ یہ خیال مجھے خوف زدہ کر رہا تھا۔‘‘
تو کیا پھر اس خوف نے آپ کو ہر وقت گھیرے رکھا، اس سوال کا نفی میں جواب دیتے ہوئے عادل نے کہا، ”میرے محلے کے ایک مولوی صاحب نے مجھے فون پر بتایا کہ اس طرح کی وبائیں محمد صلی علیہ وسلم کے دور میں بھی آئی تھیں اور جو اس میں جان سے جاتا ہے وہ شہید کہلاتا ہے۔‘‘
عادل کا کہنا تھا کہ اس جواب نے انہیں کسی حد تک مطمئن کیا، ”لیکن اس بیماری کا سماجی خوف اتنا ہے کہ میں نے اپنی امی اور بیوی سے اس بات کو چھپا کر رکھا۔ جب میرے گھر کو قرنطینہ کیا گیا تو ان کو معلوم ہوگیا لیکن میں نے انہیں فون پر تسلی دی کہ میں ٹھیک ہوجاؤں گا کیونکہ یہ بیماری بوڑھے اور پہلے سے بیمار افراد کے لیے خطرناک ہے، میرے لیے نہیں۔‘‘
آئیسولیشن وارڈ میں گزارے ہوئے دن عادل کو کسی عذاب سے کم نہیں لگے: ”میرے پاس ڈاکٹرز اچھے تھے اور ان کے پاس سارا حفاظتی سامان بھی تھا لیکن اس کے باوجود تنہا ایک ہی جگہ کئی دن گزارنا بہت مشکل ہے۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ دن میں نے کیسے دیواریں تک تک کے گزارے ہیں۔ کبھی فون کرتا، کبھی فیس بک استعمال کرتا اور وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔‘‘
اسپتال میں کیا آپ کا خیال رکھا گیا، اس بات پر عادل کا جواب تھا، ”ہمارے ڈاکٹرز اچھے ہیں لیکن ہمارا نطام اچھا نہیں ہے۔ میں نظام پر مزید تبصرہ کرنا نہیں چاہتا بس عوام کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا اپنا خیال رکھیں اور حکومت کی ہدایات پر عمل کریں کیونکہ ہمارانظام صحت بہت اچھا نہیں ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ وہ اب کیسے محسوس کرتے ہیں، عادل کا جواب تھا، ”مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ ہر چیز نئی نئی لگتی ہے۔ مجھے دس دن قرنطینہ میں رکھ کر گھر بھیج دیا گیا تھا کیونکہ میرا گھر اور محلہ لاک ڈاؤن میں ہے اور پوری فیملی قرنطینہ میں ہے۔ اب میرے پندرہ دن بھی پورے ہوگئے ہیں۔ تاہم میں باہر نہیں نکل رہا بلکہ گھرمیں ہی آرام کر رہا ہوں اور بچوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیل رہا ہوں۔‘
جس بات پر عادل کو حیرت ہے وہ یہ ہی کہ اس کی کوئی ٹریول ہسٹری نہیں رہی۔ اس کا ایک دوست آسٹریلیا اور ایک چین سے آیا تھا لیکن ان دونوں سے اس کی ملاقات تین اور دو مہینے پہلے ہوئی تھی اور وہ دونوں دوست بالکل صحت مند ہیں۔ عادل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جن ڈاکٹرز کے پاس وہ اپنے محلے میں بخار چرھنے اور گلہ خراب ہونے کے بعد گیا تھا وہ دونوں بھی صحت مند ہیں اوردونوں باڑہ میں اپنی ڈیوٹیاں بھی سر انجام دے رہے ہیں۔