تحریر: منشاء فریدی ہمیں جس قدر ہمارے ہی سلامتی کے اداروں نے متاثر کیا ہے ۔ شاید ہی کسی اور ادارے میں اس طرح ہم جسمانی سطح پر ذلت کا شکار ہوئے ہو ں ۔ پورے ملک میں جس طرح گمشدہ افراد کا مسئلہ برننگ ایشو ہے ۔ اسی طرح چوٹی زیریں ( ضلع ڈیرہ غازیخان ) میں بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ ( پولیس) بھی سبقت لے جانے میں کوشاں ہے اور ترقی کے سٹارز کا خواہش مند ہے ۔ قبل ازیں بھی ایسے پولیس افسروں کو پرو موٹ کر کے اہم اعہدے سونپے گئے ۔ جو شہریوں کو غیر قانونی حراست میں لے کر جعلی پولیس مقابلوں میں پار کر کے عوام اور قوم میں ریاست کے خلاف انتقام کے جذبات پیدا کرتا رہا ہے ۔ یہاں یہ روایت بھی عام ہے کہ تھانہ میں ٹائوٹ ما فیاء اپنے احکامات جاری کرتا ہے ۔ مقدمات کا اندراج ۔ جسمانی و ذہنی تشدد اور نجی ٹارچر سیلز میں شہریوں کو منتقل کرنا ، یہ سب کام متحرک و سرگرم ٹائوٹ گروپس کے ایماء پر انجام پاتا ہے ۔ اگر اس کلچر کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ممکن ہی نہیں کہ یہاں لا قانونیت کی فضاء ختم ہو ۔ ایسی صورت میں ہمارا معاشرہ جرائم کی دلدل سے نہیں نکل سکے گا ۔ اور نہ ہی ذہنی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے ۔ اگر پولیس میں موجود غلیظ قسم کا تشدد کلچر یا بد بودار نظام قائم و دائم رہا تو قوم مستقل بنیادوں پر ٹارچر ہوتی رہے گی۔
ایک مقدمہ بجرم 365Bنمبر 209/16تھانہ چوٹی میں درج ہوا۔ اس مقدمہ کی صحت پر اگر بحث کی جائے تو شواہد موجود ہیں کہ سرے سے یہ مقدمہ ہے ہی بے بنیاد ۔ اس میں درج مؤ قف چیخ چیخ کر خود کو جھوٹا ڈی کلیئر کر رہا ہے ۔ لیکن پولیس ہے کہ اپنی بد نیتی کو چھپانے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے ۔ آیئے اس مقدمہ پر کچھ بحث کر لیتے ہیں تاکہ قارئین اور مجاز حکام بھی چوٹی پولیس کی متعفن نیت سے آگاہ ہوں۔ منگل کا دن ہے ۔12جولائی 2016ء اور اخبار ہے ”خبریں ” جس میں بیک صفحہ پر ایک اشتہار بعنوان” تلاش گمشدہ” چھپا کہ ” عارفہ بی بی ولد خادم حسین قوم ہجبانی موضع چک دوداڑہ سکنہ چوٹی زیرین عمر 13سال جس کا ذہنی توازن درست نہیں مورخہ 10-07-2016 کو ڈیرہ غازیخان جاتے ہوئے لا پتہ ہو گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے گھر والے کافی پریشان ہیں ۔ جس نیک آدمی کو ملے ان نمبرز پر رابطہ کرے۔ المشتہر : خادم حسین ہجبانی 0332-6208940 / 0340-8009456 13سالہ مذکورہ بچی جو ڈیرہ غازیخان جاتے ہوئے لا پتہ ہوئی ۔ اسی لڑکی کے اغواء کا نامزد مقدمہ برکت ، بخش اور ایک نا معلوم کیخالف درج ہوا۔
FIR
ایف آئی آر میں درج مؤقف بھی قارئین کے سامنے پیش ہے ۔ تا کہ حقائق سامنے آسکیں ” میں خانہ داری کرتی ہوں ۔ عرصہ 1/1/2 ماہ قبل میں اور میری بیٹی عارفہ بی بی گونگی بعمر تقریبا ً 18سال اپنے گھر میں موجود تھیں ۔ بوقت عصر ویلہ بیٹی ا م عارفہ بی بی رفع حاجت کیلئے باہر نکلی ۔ تین کس نا معلوم نے مسماة عارفة بی بی گو نگی بہری کو پکڑ کر موٹر سائیکل پر بٹھا لیا ۔ عارفہ بی بی گونگی بہری نے شور مچایا تو شور کی آواز سن کر میں منظور حسین ولد خادم حسین بیٹا ام ذوالفقار علی ولد خدا بخش قوم ہجبانی سکنہ موضع چک دوداڑہ بھاگ کر باہر آئے تو دیکھا بخش ولد فیض محمد عر ف فیضو قوم درکھان برکت علی ولد اللہ بخش قوم ہجبانی سکنائے چک دوداڑہ نے عارفہ بی بی گونگی بہری کو موٹر سائیکل پر اپنے درمیان میں بٹھا یا ہوا ہے اور قابو کیا ہوا ہے۔ جبکہ ان کے پیچھے ایک نا معلوم شخص بھی بیٹھا ہوا تھا ۔ دو کس بخش اور برکت کو میں معہ گواہان نے پہچان لیا جبکہ تیسرے شخص نا معلوم کو سامنے آنے پر پہچان سکتے ہیں ۔ہر سہ اشخاص میری بیٹی عارفہ بی بی گونگی کو اغواء کر کے زناء حرام کیلئے لے گئے ہیں ۔ اس وقت تک میں معہ گواہان و وکٹم مذکورہ کا والد خادم حسین ملزمان کی منت سماجت کرتے رہے ہیں کہ عارفہ بی بی بے زبان ہے واپس کر دو جنھوں نے واپس کرنے کیلئے مہلت مانگی ۔ حسب وعدہ واپس نہ کی ہے اور آج کل پر ٹالتے رہے ہیں ۔میر بیٹی متذکرہ بالا اغواء ہو چکی ہے۔ آخر کار صاف انکار ی ہوگئے ہیں۔
تمام تر دیگر وضاحتوں سے قطع نظر عارفہ بی بی کی تلاش کیلئے بچی کے والد خادم حسین کی طرف سے” تلاش گمشدہ ”ایک قومی روزنامہ میں شائع ہوا۔ بعد ازاں اسی بچی کے اغواء کو جھوٹا مؤقف پولیس کے سامنے ریکارڈ کرایاگیا جو قارئین اور اس کالم کے ذریعے حکام بالا کے سامنے رکھا جا رہا ہے ۔ یہ امر بھی پیش نطر ر ہے ۔ کہ مذکورہ بالا فریقین کا ایک عرصہ سے باہم تنازعات بھی چل رہے ہیں۔۔ چنانچہ انتقاماً مقدمہ قائم کیا گیا۔ مقدمہ ہذا کے اندراج کیلئے مشہور زمانہ ٹائوٹو ںاور سود خور کی خدمات لی گئیں۔ جو علاقہ میں کمیشن ایجنٹ کے طور پر مشہور و معروف ہیں اور ساتھ ہی بھو نگا مافیاء کے سرغنہ بھی ہیں ۔ جب اس مقدمہ کی مدعیہ نے اپنا بیان درج کر اتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ” میں خانہ داری کرتی ہوں ” محض جھوٹ ہے ۔ یہ خاتون اور تمام اہل خانہ راولپنڈی ،اسلام آباد ،لاہور ، کوئٹہ، کراچی ، ایران اور سعودی عرب میں گداگری کا پیشہ کرتے ہیں ۔ اور ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ معذور افراد کو بھکاری گروہوں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں ۔ گمشدہ بچی عارفہ بی بی کی عمر ایف آئی ار میں 18سال درج ہے ۔ جبکہ بچی کے والد خادم حسین کی طرف سے دیئے گئے اخبار اشتہار میں 13سال ہے ۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ جھوٹا مؤقف پیش کرتے ہوئے ۔ مدعیہ کی زبان اور پولیس کا بد معاش قلم لڑکھڑا گیا۔
Arrested
مقدمہ کے اندراج سے ایک ہفتہ قبل ہی دونوں نامزد و ملزمان بخش اور برکت ہراست میں لے لئے گئے تھے۔ جن پر مسلسل پر شدید تشدد کیا جا رہا ہے ۔ جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ پولیس اور مدعی پارٹی کی بد نیتی کا ادراک کرتے ہوئے ملزم برکت کے ورثاء نے عدالت میں ہر اسمنٹ کی ریٹ دائر کی جس کو بنیاد بناتے ہوئے متعلقہ تفتیشی چوہدری سرور و دیگر عملہ تھانہ بپھر گیا ۔ معزز عدالت کا تقدس پامال کرتے ہوئے ملزم برکت کے بھائیوں اور خواتین کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی ۔ محمد علی گرفتار ہوا۔ لیاقت کو گر فتار کرلیا ۔ گھر کی چار دیواری کا مسلسل تقدس پامال کیا جا رہا ہے ۔ مجبوراً ملزم پارٹی نے برکت ، لیاقت اور محمد علی کی غیر قانونی ہراست بارے تھانہ چوٹی میں عدالتی بیلف کا چھا پہ مروا دیا ۔ عدالتی بیلف بارے اطلاع ملتے ہی اے ایس آئی چوہدری سرور نے غیر قانونی طور پر ہراست میں لئے گئے مذکورہ افراد کے علاوہ نامزد ملزم بخش کو بھی نجی ٹارچر سیل میں نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا ۔ راقم الحروف نے اس قتل مذکورہ بالا افراد کو بچشم خودگرفتار دیکھا کہ چوہدری سرور اے ایس آئی سرور جوگیانی کنسٹیبل اسماعیل رمدانی کنسٹیبل حنیف ودیگران زیر ہر است افراد کو غیر انسانی تشدد کرتے رہے ۔ برکت اور بخش کو ”چیرا ” دیتے ۔ ان پر ڈنڈا پھیرتے اور واٹر بورڈنگ جیسے بد نام زمانہ تشدد کے طریقے اپناتے اور ساتھ ہی ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر کہتے کہ ” کلمہ پڑھو ہم تمہیں فائر کر کے قتل کرنے والے ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کے بخش اور برکت کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہیں اور مختلف جسمانی و ذہنی عوارض کا شکار ہو چکے ہیں ۔ نجی ٹارچر سیل میں مقید مذکورہ افراد کو نہ ہی علاج معالجہ تک رسائی حاصل تھی ۔ اور نہ ہی خوراک اور پینے کے پانی تک۔ انہیں مسلسل ٹارچر کیا جا تارہا ۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ پولیس کی طرف سے اغواء کئے گئے مذکورہ افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں پار کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کی جا چکی تھی ۔ راقم نے اس مقدمہ بارے روز اول ہی سے بنیادی معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دی تھی تا کہ ایک تفصیلی کالم اس پر لکھا جا سکے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکام تک حقائق پہنچانے کیلئے سوشل میڈیا فیس بک اور ٹوئیٹر پر سٹیٹس اور ٹوئیٹس بھی کئے تا کہ حکام با خبررہیں ۔ آخر میں قارئین کرام کیلئے مذکورہ سٹیٹس اور ٹوئیٹس تحریر کیئے جا رہے ہیں ۔
” وزیر اعلی پنجاب ! آپ سو گئے ہیں ۔۔۔۔! ”تلاش گمشدہ ”کے اشتہار کی اشاعت اور بعد ازاں اس بچی عارفہ بی بی کے اغواء کا جھوٹا مقدمہ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور آئی جی پنجاب ! کیا آپ لسی پی کر سو گئے ہیں ۔ ۔۔۔؟ ملزمان پر نا قابل برداشت غیر انسانی و غیر قانونی تشدد کا سلسلہ جاری۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کو سانپ سونگھ گیا ۔! ” تلاش گمشدہ ” اور عارفہ بی بی کے اغواء کا جھوٹا مقدمہ ! اے ایس آئی چوہدری سرور تو ناشتہ بھی ٹائوٹ آقائوں سے کرتا ہے ۔ چیف منسٹر، آئی جی پنجاب ! اے ایس آئی چوہدری سرور ان دنوں تھانہ چوٹی زیرین میں غیر قانونی اور غیر انسانی تشدد کیلئے بد نام زمانہ لتر ( چھتر ) استعمال کر رہا ہے ۔