راولپنڈی (جیوڈیسک) سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ اگر ان کا مشورہ مانا جاتا تو آج ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی۔
راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار نے کہا، ‘میں نے کوئی لمبا چوڑا مشورہ نہیں دیا تھا، بس یہی کہا تھا کہ بیانات میں تلخی کو ختم کریں اور عدلیہ اور فوج کو نشانہ بنانے والے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں اس وقت نہ اپوزیشن میں ہوں اور نہ حکومت میں، لیکن میں کہتا ہوں کہ احتساب شفاف نہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘احتساب کے طریقہ کار میں شفافیت کی ضرورت ہے، متنازع احتساب اس ملک کے لیے زہرِ قتل ہے، حکومت کو احتساب کے طریقہ کار پر تحفظات دور کرنے چاہئیں ورنہ یہ احتساب انتقام ہوگا’۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ ‘احتساب حکومتیں نہیں بلکہ ادارے کرتے ہیں، جب نیب یا عدالت کا فیصلہ ہو تو حکومت کہتی ہے کہ یہ ہم نےکیا، اس سے معاملات متنازع ہوتے ہیں’۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘اومنی گروپ کا احتساب حکومت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کر رہی ہے’۔
چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ ‘پاکستان کے حالات شدید ترین سیاسی بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں، حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ورنہ ملک کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے’۔
دوست ممالک سے قرضہ لینے کے حوالے سے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ‘متحدہ عرب امارات، سعودی عرب یا چین سے امداد وقتی ہے کیونکہ قرض لے کر وقت گزارا جاسکتا، پاکستان کی ترقی نہیں ہوسکتی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جتنی چادر ہو، اتنے ہی پاؤں پھیلانے چاہئیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے غیروں کے قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے اب دوستوں کے قرضوں میں جکڑ جائیں’۔
کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد کے حوالے سے سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ‘سکھ برادری کے لیے یہ ایک اچھا تاثر ثابت ہوا ہے لیکن کرتارپور راہداری کھولنا حکومت کا نہیں بلکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اقدام تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘کرتارپور کھولنے کے بعد حکومت بھارت سے مذاکرات کے لیے منتیں کر رہی ہے، یہ عمران خان کے قول اور غیرت کے منافی ہے، مودی کی منت نہیں کرنی چاہیے’۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ ‘ہمیں اس بات پر قائل ہوجانا چاہیے کہ مودی حکومت کے ایجنڈے میں پاکستان سے اچھے تعلقات نہیں، ان کا ایجنڈا مسلمان اور پاک دشمنی ہے اور اس ماحول میں بار بار مذاکرات کی بات کرنا اور منت کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں’۔