قیام وطن عزیز کو 73 برس بیت گئے ہیں اور اس کیساتھ ہی کرپشن کو پنپنے کے بھی 73 برس ہو گئے بلکہ دیکھا جائے تو 150 برس بعد والا سفر بھی وقت سے77سال پہلے ہی طے کرلیا ہے۔جس کی وجہ یہاں انگریزوں کے خامدین اس حوالے سے پیدائشی بددیانت خاندانوں کو جو سازگار ماحول اس دھرتی پر ملا شاید انہیں مریخ، چاند یا کسی دوسرے سیارے پر بھی میسر نہ آسکتا۔ بددیانت خاندانوں کی تنظیمی شکل نے میگا گروہ /مافیازکی صورت اختیار کی تو اس کی ایک شکل یہاں نام نہاد جمہوریت کی صورت میں سامنے آئی ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ، کھل کر کرپشن کرنے کی آزادی کو جمہوریت کا نام دے دیا گیا، اسی جمہوری کشمکش میںاس وطن کے دو ٹکرے ہوگئے ترقی والے جو اکا دکا معاملات تھے وہ الاماشاء اللہ تیزی سے روبہ زوال ہوئے۔ ایک کے بعد دوسرے شعبے کا دیوالیہ نکال دیا گیا۔ ذاتی اثاثہ جات کی بات کی جائے تو مافیاز نے قومی خزانہ پر پوری نیک نیتی سے ہاتھ صاف کرنے کیساتھ ، بدعنوانیوں کے دیگر ذرائع سے دولت کے انبار لگا لئے اور اسے بہترین جمہوریت کا نام دیا گیا۔سیاسی پارٹیاں /تنظیمیں تشکیل دی گئیں۔
بددیانت خاندانوں نے جمہوریت کے نام پر جاری بددیانتی کی اس ریس میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کیلئے مائیکرو سطح سے اپنے جیسے بددیانت تلاش کرتے ہوئے ان کے سروں پر دست شفقت رکھا ۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج گلی محلوں دیہاتوں میں موجود نام نہاد چوہدری، پیشہ ور بددیانت کسی نہ کسی سیاسی جماعت، کسی اثر ورسوخ والی تنظیم کا ٹیگ ضرور ساتھ لگائے پھرتے ہیں بالخصوص برسراقتدار جماعتوں کے کن ٹٹوں سے ہاتھ ملانے اور ان کی چھتری تلے آنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے جدید معاشرے کی بااثر تنظیموں میں سیاسی پارٹیوں کے علاوہ وکلائ، بارز کی تنظیموں کے بھی نام آتے ہیں۔ اگرچہ وکلاء کی تنظیموں کا مقصد ساتھیوں کی فلاح و بہبود اور معاشرتی اصلاح کا تھا مگر بدقسمتی سے یہاں بھی وہی خاندان آگھسے جن کا معاشرے کی فلاح وبہبود سے قطعا کوئی واسطہ نہ ہے ان کے پیش نظر فقط کرپشن کا تحفظ، غریبوں کے حقوق دبانے، جعلی چوہدراہٹ جمانے جیسے مذموم مقاصد ہیں جو اپنے عہدوں کا استعمال کرتے ہوئے ملکی جمہوریت کے ٹھیکیداروں سے تعلق وسیع کرتے ہیں جبکہ ٹھیکیداروں کو وکلاء کی ہر محاذ پر ضرورت درپیش رہتی ہے۔
اس طرح پڑھے لکھے لوگوں کی تنظیموں میں مجرمانہ ذہنیت کے حامل عناصر /گھس بیٹھیوں نے پڑھے لکھوں کی محافل پر بھی بددیانتی اور بدعنوانی کا لیبل لگا دیا۔اس وقت ملک بھر کی بارایسوسی ایشنز بالخصوص وسطی ، شمالی پنجاب لاہور، گوجرانوالہ، وزیرآباد، راولپنڈی وغیرہ کی بارز ایسوسی ایشنز کا عمیق جائزہ لیا جائے تو گندی سیاست نے جعلی وکلاء والی بارز کو پروان چڑھایا ہے اپنے لئے وکالت کے پیشے کو پرکشش جانتے ہوئے بددیانت خاندانوں نے اس شعبے کا رخ کرلیا۔ ایل ایل بی ڈگری کے حصول کیلئے بڑھتے ہوئے رحجانات کو دیکھ کر یونیورسٹیز میں بیٹھے ہوئے مافیاز نے ڈگریوں کی لوٹ مار سیل لگا دی۔بدعنوان عناصر نے ایسے ایسے افراد کو قیمتاً ایل ایل بی کی ڈگریوں سے نواز دیا جن کا اس ڈگری کے ”ایل” سے بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ جعلی ڈگریوں کی بڑھتی ہوئی شکایات پر گزشتہ سالوں میں پنجاب بار کونسل کی طرف سے ایک قدم اٹھایا گیا کہ وکلاء کی ڈگریوں کی تصدیق کروانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ملک بھر کی یونیورسٹیز سے ایل ایل بی کی ڈگریاں اکٹھی کرنے اور اس پر سالہا سال عدالتوں میں پیش ہونے والے لاتعداد جعلی ڈگریوں والے ”ڈمی” سامنے آئے جن کے لائسنس منسوخ کرنے، فوجداری مقدمات کے اندراج کی باتیں ہوئیں مگر عمل کہیں بھی نظر نہ آیا ۔وجہ ؟ یہی کہ یہاں بھی بااثر سیاسی شخصیات ، بارز کے عہدیداروںکے چہیتوں کو بچانے کی خاطرسارے معاملے پر پردہ ڈالتے ہوئے چوروں، ڈاکوئوں کی اولادوں کو فراڈ کیلئے آزاد کردیا گیا جنہوں نے دیگر بے قاعدگیوں کیساتھ بار میں تشدد پسندانہ وکالت کو فروغ دیا۔پنجاب بار کونسل سے ملنے والی اس نرمی کا جعلسازوں کو یہ فائدہ ہوا کہ قانون میں ممانعت کے باوجود سرکاری محکموں کے حاضر سروس ملازمین کو بھی وکالت کے لائسنس جاری ہوگئے جو پنجاب بار کونسل سے باقاعدہ انرول ہو کر بطور پریکٹسنگ لائیر عدالتوں میں پیش ہوتے اور ملکی قوانین کی دھجیاں اڑانے اور خزانہ سرکار پر ہاتھ صاف کرنے میں مصروف ہیں۔
جن کیخلاف شکایات کے باوجود کاروائی کا نہ ہونا اور یامعاملے کو التواء میں ڈال دینا جعلسازوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے۔ملک میں اس سے بڑی لاقانونیت کیا ہوگی۔ انصاف کے مقدس اور اثر ورسوخ والے اداروں، عدالتوں میں دیدہ دلیری سے فراڈیئے دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے پیش ہوں؟ یقینا ایسے فراڈیے اپنے جیسے فراڈیوں کے پشتبان ہوتے ہیں۔جعلی وکلاء اور ڈگریوں کی لوٹ مار سیل نے ملک میں نظام انصاف کیساتھ ساتھ تعلیمی نظام کا بھی پول کھول رکھا ہے۔
آج یہ معاملہ اس قدر گھمبیر ہو چکا ہے کہ یونیورسٹیز میں موجود جعلساز مافیا ملتے جلتے ناموں کی ڈگریاں فروخت کرنے، پرانی تاریخوں میں ڈمی امیدواروں کو تین سالہ لاء میں انرول کر کے امتحانات میں شمولیت کے آخری چانسز سے مستفید کرنے کے علاوہ انتظامیہ سے ملکر امتحانات میں حاضری کی شرط پر 100فیصد کامیابی کی ضمانت دے رہا ہے اس حوالے سے مبینہ طور پر سندھ اور آزاد کشمیر کی ڈگریاں مشہور ہیں پنجاب کے رہائشی سیاستدانوں ، قبضہ مافیا کی اولادوں، نااہل، نکموں کی فوج کا بڑا ہدف پنجاب بار کونسل میں رجسٹرڈ ہونا ہے جو سندھ اور آزاد کشمیر کی یونیورسٹیز سے بغیر محنت حاصل کی گئی ڈگریاں لیکر وکالت جیسے پروفیشن کی بدنامی میں مصروف ہیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قانون کا نصاب انگریزی میں ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں اردو میں قانون کے امتحانات پر پابندی عائد ہے جبکہ آزاد کشمیر میں یہ سلسلہ ابھی بھی چل رہا ہے جس کی الگ سے حکومت ہے اور ایسی متضاد حیثیت کی ڈگریوں کو پنجاب بار کونسل میں باآسانی انرول کیا جارہا ہے۔
سوال یہ کہ ایسی ڈگریوں کو ہائیر ایجوکیشن کے بعد پنجاب بار کونسل میں کیسے تسلیم کیا جارہا ہے؟ ایسا کرنا وطن عزیز میں دوہرے معیار کیساتھ ساتھ اداروں کے ذمہ داران کا فراڈ کرنے والے عناصر کی معاونت اور جعلسازی کے دھندوں کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے۔ راقم پروفیشنل وکلاء سے ملتمس ہے کہ اس شعبے میں آنے والی کالی بھیڑوں کا راستہ روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ معاملے کا از خود نوٹس لیکر جعلی ڈگریوں کی فوری چھان بین کرواتے ہوئے یونیورسٹیز میں جاری دھندے کیخلاف کاروائی کریں تاکہ ملک میں آئین ، قانون کی کچھ تو عزت باقی رہ جائے۔