میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قا نون کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کروں گا اور خلاص ِ نیت کے ساتھ پاکستان کا حامی و وفادار رہوں گا اور ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا، آئین پاکستان کی حفاظت کروں گ ، ہر حالت میں بلا خوف و تردد خدمات سر انجام دوں گا اور اپنے فرائض ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری، سا لمیت، استحکام، بہبودی اور خوشحالی کی خاطر سر انجام دوں گا۔
صاحبو : ہمارے وطن کی بے لگام اور بے امام نام نہاد اشرافیہ پارلیمنٹ میں قدم رنجہ فرماتے ہی ملک سے وفاداری اور قوم کو غربت زدہ حبس کے ماحول میں بادِ بہاری کے سہانے خواب دکھانے کے لیے ”حلف نامہ ” پڑھتی ہے اور عہد کرتی ہے کہ ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو سرکاری مفادات پر حاوی نہیں ہونے دوں گی اور قانون و آئین کی روشنی میں اپنے منصبی فرائض سر انجام دوں گی بلا کسی اندرونی و بیرونی خوف کے کام کروں گی مگر جب ہم پاکستان کی ستاسٹھ سالہ سیاسی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات صاف صاف لکھی ہوئی نظر آتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی پیشانی رب تعالیٰ کی بجائے ”وائسرائے ” اور ”وائٹ ہائوس ” کی چوکھٹ پر جھکائی ہے اور جیسے ہی پینٹا گون سے آنے والی فون کال کی گھنٹیاں کھڑکتی ہیں ملک و قوم سے وفاداری کا حلف اُٹھانے والے ہمارے حکمرانوں کے دل بھی دھڑکنا شروع کر دیتے ہیں ہمارے حکمرانوں نے کبھی بھی شاعر مشرق کے اس شعر کو ورد ِ زبان اور حرزِ جاں نہیں بنایا کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
وائٹ ہائوس اور تل ابیب کے بچے کھچے ٹکڑوں پر انحصار کرنے والے حکمرانوں کے تخیل و تفکر کی پرواز میں ہمیشہ کوتاہی آئی ہے اور اپنی نگاہوں کو بلند کرنے کی بجائے ہمیشہ ”گدھ ”کی طرح دوسروں کے مرے ہوئے بے کار شکار پر اپنی نگاہیں مرکوز رکھی ہیں ہمارے ملک کی اشرافیہ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ 20 کروڑ غریب عوام کس طرح روٹی کے دو لقموں اور صاف پانی کے چند قطروں کو ترستے رہتے ہیں ہمارے ملک کی نام نہاد اشرافیہ تو ”اشنان ” بھی منرل واٹر سے کرتی ہے جبکہ غریب کے بچے کو چند گھونٹ پانی بھی میسر نہیں ہے ،لوڈشیڈنگ کی شدت اورآگ اُگلتے سورج کی حدت نے غریب کے آنگن کو جھلسا کے رکھ دیا ہے اور اشرافیہ کے 15,15مرلہ کے باتھ رومز میں بھی اے سی لگے ہوئے ہیں جہاں وہ صبح سویرے مزے مزے سے اخبار پڑھتے اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ چٹھے ، چیمے ، نواب ، چوہدری ، قریشی ،ہاشمی ، لغاری ، مزاری ، زرداری ، دریشک ، گیلانی ، کھوسے ، اچلانے ، تھند ، جکھڑ ، سیہڑ ، مہر ، مگسی وطن عزیز کے چاچے مامے اور تائے بنے ہوئے ہیں یوں لگتا ہے کہ پاک سرزمین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی غریب عوام پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ”حقِ حکمرانی ”کی سند لے کر آئے ہیںاورجب بھی کبھی کوئی ملک و قوم کی بہتری اور فلاح و بہبود کی بات کرتا ہے تو یہ امریکی سامراج کے پٹھو ، نوکر اور اُن کی دہلیز پر ناک رگڑنے والے چاکر راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ ”جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ”ڈیل کے نتیجے میں حکمرانی کرنے والے یہ ذہنی غلام در اصل کہنا یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کے با وجود ”اقتدار کے دستر خواں ” پر ہم سب ایک ہیں بقول انقلابی شاعر انوار المصطفیٰ ہمدمی
بظاہر جنگ لگتی ہے مگر اندر سے سمجھوتے خدارا اب تو سمجھو اس سیاست کی ادا کاری چلو اس بار دیتا ہوں سہارا تیری کشتی کو مگر یہ یاد رکھ لینا ، کہ اگلی ہے مری باری
اب جو مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ نے طویل عرصہ کی خاموشی کے بعد بیان داغا ہے کہ”نواز شریف کو وزیر اعظم بنا گیا ہے ، بادشاہ نہیں ”مجھے تو یہ بھی ایک ”گیم یا ڈیل ” ہی لگتی ہے جو شریفین والبریفین کے کہنے پر کھیلی جا رہی ہے کپتان عمران خان کو بھی اِن کی مکاریوں اور عیاریوںکو سمجھنا چاہیے بہر حال سیاسی لحاظ سے عمران خان کا ویٹ بڑھ گیا ہے عمران خان کو ہوشیار بھی رہنا ہو گا کیونکہ اندر کھاتے یہ دونوں ایک ہی ہیں اِن کے مقاصد ایک ہی ہیں کیونکہ وادی مہران کے ”شاہ ” نے مفادات کی کچھار سے نیا خورشید طلوع کیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ عمران خان پانچ سال انتظار کریں حکومت کو چلنے دیں ، جمہوریت کو ڈی ریل نہ کریں ۔۔۔۔جنابِ خورشید شاہ، ایسی جمہوریت پر ہزار بار، لاکھ بار لعنت ہوجو غریب جمہور کو روٹی ، کپڑا اور مکان نہ دے سکے۔
Poor People
باری باری کے کھیل نے غریب عوام کے لیے جینا دو بھر کر دیا ہے جینا تو دور کی بات ہے اب مرنا بھی دشوار ہو گیا ہے سسک سسک کے زندگی گزارنے پر مجبور ۔۔۔۔نام نہاد جمہوریت کی ڈسی جمہوراب کدھر جائے ۔۔۔۔۔؟
جمہوریت کے ہاتھوں جمہورمر رہے ہیں زندہ ہیں صرف نعرے منشور مر رہے ہیں نوکیلے پتھروں پر مزدور مر رہے ہیں محرومیاں نگل کے مجبور مر رہے ہیں پلٹے کا وقت دھارا دیکھے گا جگ یہ سارا ظلمت کی چلمنوں سے نکلے گا اک ستارا یہ نظام دفن ہو گا نئی روشنی کے ہاتھوں پھر گونج یہ اُ ٹھے گی جمہور ہی کے ہاتھوں دیکھو وطن کے سارے نا سور مر رہے ہیں کچلے ہوئے ہیں زندہ مغرور مر رہے ہیں
اقتدار کی ہوس کے پجاری ملک کو کھا کھا کر کنگال اور اپنے آپ کو خوشحال کر چکے ہیں اور جب بھی غریب عوام کے لیے کوئی ”مسیحا ” آواز بلند کرتا ہے تو اُس کے خلاف با قاعدہ منصوبہ بندی کر کے توپوں کا رُخ اُسی کی طرف کر دیا جاتا ہے اور اُس کو غیر ملکی یجنٹ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے حکومتی ترجمان ”پرویز ”جو شریفین کو رجلِ رشید اور شاگردِ رشید ہونے کا ثبوت دینے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ”شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ”ہونا کوئی اِن سے سیکھے ،مگر یاد رہے تاریخ میں ”پرویزوں ”کا انجام نہایت ہی بھیانک اور عبرتناک ہوا ہے اِسکی مثال ماضی قریب میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ غریب عوام کو اپنے حقوق کے حصول سے بھی محروم کر دیا گیا ہے ستاسٹھ سالہ تاریخ میں کبھی بھی کسی حکمران نے اپنے آپ کو عوام کے کٹہرے میں پیش نہیں کیا اگر کسی نے اِن کے خلاف آواز اُٹھانے کی کوشش بھی کی ہے تو اُس بد قسمت کی آوازمقامی ایس ایچ او کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرا دی جاتی ہے مگر جب ہم اپنے اسلاف اور اکابرین کی روشن و تابندہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری روح کے بند دریچے کھُلتے اور پژمردہ چہرے کھِلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، حضرت ابوبکر صدیق نے خلافت کا منصب سنبھالتے وقت اپنا تا ریخی خطبہ ارشاد فر مایاتھا جو سنہرے حروف سے لکھنے اور دل کے نہاں خانوں میں چھُپانے کے قابل ہے ،اول آپ نے حمد و ثناء الہی بیان کی پھر فر ما یا تھا۔
” بعد حمد الہی اے آدمیو !واللہ مجھ کو ہر گز امیر بننے کی حرص نہ کبھی دن میں تھی اور نہ میں نے اللہ سے ظاہر یا پوشیدہ اس کے لیے دُعا کی البتہ مجھ کو یہ خوف ہوا کہ کو ئی فتنہ نہ اُٹھ کھڑا ہو مجھ کو حکومت میں کچھ راحت نہیں ہے بلکہ مجھ کو ایک ایسے امر ِ عظیم کی تکلیف دی گئی ہے جس کے بر داشت کی مجھ میں طا قت نہیں اور نہ وہ بدون اللہ عز و جل کی مدد کے قا بو میں آسکتا ہے میری ضرور یہ آرزو تھی کہ آج میری جگہ سب سے زیادہ قوی آدمی ہو تا یہ تحقیق ہے کہ میں تمہارا امیر بنا یا گیا ہوں اور میں تم سے بہتر نہیں ہو ں اگر میں راہ راست پر چلوں مجھ کو مدد دو اگر بے راہ چلوں مجھ کو سیدھا کر دو صدق امانت ہے اور کذب خیانت ، جو تم میں کمزور ہے وہ میرے لیے قوی ہے انشا ء اللہ اس کا حق دلوا دوں گا اور تم میں جو قوی ہے وہ میری نظر میں کمزور ہے اس سے انشا ء اللہ حق لے کر چھو ڑوں گا ، جو قوم راہ حق میں جہاد چھو ڑ دیتی ہے وہ ذلیل کر دی جاتی ہے اور جس قوم میں بے حیائی کا راج ہو جا تا ہے اُس پر عام طور پر عذاب ِ الہی نازل ہوجا تا ہے جب تک میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نا فر مانی کروں تم کو میری اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔
Noman Qadir Mustfai
تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی فون نمبر: 03314403420