تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم بھلا جنہیں حلف نا مے اور اقرار نا مے میں معنی اور مفہوم کے فرق کی تمیز ہی نہ ہو ،اَب ایسے میں آپ خود ہی سوچیں یاکسی دا نا سے پوچھیں کہ یہ کیسے مزید حکمرا نی کے اہل ہو سکتے ہیں؟ اور غلطی پہ غلطی یہ کہ اعلیٰ عدلیہ جنہیں واضح اور کھلے لفظوں میں نا اہل قرار دے چکی ہو یہ اِسے بھی نہ ما نیں تو اور بات ہے مگر اصل حقیقت بس یہی ہے کہ یہ ایسے کسی اورمعاملے کو تو بیشک نہ ما نیں مگراَب اِنہیں حلف نا مے اور اقرارنا مے کو یکسا ں کہنے والے اپنی نا اہلی کوتو ضرور تسلیم کریں اور اپنی زبان سے خو د کہیں کہ ہم نا اہل ہو چکے ہیں،تو یہ عوام الناس میں اپنا وقار اور امیج بحال رکھ سکے ہیں ور نہ نا ممکن ہے مُلک میں پچھلے چند ما ہ سے سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں میں تناو ¿ کی جیسی صورت پیدا ہوچکی ہے اوراِن لمحات میں جیساسیاسی درجہ حرارت گرم سے گرم تر ہوتا جا رہاہے اس ساری غیر تسلی بخش کیفیات کی ذمہ دار بھی برسرِ اقتدار اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں ہیں اور با لخصوص اِ ن تمام بگڑتی ہو ئی صورتِ حال کے اصل ذمہ دارتو با لخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب سربراہ محمد نواز شریف ہیں جنہوں نے سُپریم کورٹ سے اپنی نا اہلی کے فیصلے کے بعد اپنی نا اہلی کوسڑکوں پر نکل کر عوامی طاقت کے استعمال سے اہلیت میں بدلنے کی سیاست کی راہ اپنا ئی ہے اور یہ اپنے کئے پر بہت زیادہ خوش فہمی میں مبتلاہیں کہ جو یہ کررہے ہیں سب درست اور جا ئز اور آئین و قا نون کے عین مطا بق ہے جبکہ ایک عا م پاکستا نی اور ووٹر بھی یہ بات اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ آج مُلک میں ایک شخص کو بچا نے اور اُس کی جمہوریت کے نا م پر پوچا پاٹ کی جا رہی ہے اور منٹوں ، گھنٹوں دنوں اور مہینوں میں مُلکی آئین اور قا نون میں جیسی من پسند تبدیلیاں کی جا رہی ہیں وہ کسی بھی حال میں مُلک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے سُود مند ثا بت نہیں ہوسکتی ہیں،آج پی ایم ایل (ن) کے نو منتخب صدر نواز شریف اپنی نا اہلی کو اہلیت میں تبدیل کرنے کے لئے عوامی کو سڑکوں پر لا نے کی پالیسی پر ضرور گامزن ہیں مگر ایک لمحے کے لئے نوازشریف اور ن لیگ والوں کو یہ ضرور سوچنا چا ہئے کہ یہ جو کچھ بھی کررہے ہیں وہ اپنی نا م نہاد جمہوریت کی اُوٹ سے صرف اپنی ذات اور ایک شخص کو بچا نے کے لئے تمام حدیں عبور کررہے ہیں اِنہیں کچھ دیر کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چا ہئے کہ ابھی ادارے اِنہیں ڈھیل دے کر اِن کی اُڑا ن دیکھ رہے ہیں کہ یہ کہاں تک اُڑسکتے ہیں یہ چا ہتے ہیں کہ نااہل جہاںتک جا سکتے ہیں یہ ہاتھ پاو ¿ں ما رتے جا ئیں اور اپنی مرضی کی را ہیںمتعین کرکے اُڑتے جا ئیں اور اُڑتے جا ئیں جب اپنی مرضی کے اِن پَر کٹے آزاد پرندوں کو پکڑنا ہوگا تو پکڑ کر پنچرے میں قید کرلیں گے مگر ابھی اِنہیںخود سے اپنا احتساب کرتے ہوئے سنبھلنے کا موقعہ ضرور دیا جا ئے اگرپھر بھی یہ اپنی مرضی کے سیا سی آزاد پنچھی اپنی حالت خود نہ ٹھیک کرنا چا ہیں تو پھر وہ ہی کیا جا ئے جس کامُلکی آئین اور قا نون اجازت دیتا ہے اور ایسے لوگوں کو لگام دینے کے لئے تقا ضہ کرتا ہے۔
اگرچہ ، الیکشن ایکٹ 2017ءکے تحت ختم نبوت ﷺ سے متعلق حلف نا مے اور اقرارنا مے میں واضح فرق کی تمیز سمجھ میں آجا نے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب سربراہ محمد نواز شریف نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تبدیلی کا نوٹس لیااور فوری طور پراِسے پچھلی والی حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا اور سخت ترین ہدا یا ت بھی دیں اِس طرح اِنہوں نے سیا سی اور ذاتی طور پر اِس معاملے کی ہر ممکن صاف و شفاف تحقیقات کا بھی کہہ کر فوری طوری پر سارے معا ملے پر پَردہ ڈالتے ہوئے اِسے دفن کر نے کی حکمتِ عملی اپنا ئی اِس طرح الگ بھگ بیس کروڑ مسلمان پاکستا نیوں کی اپنے آقا حضور پُرنور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے اپنی جا نوں اپنی اولادوں سے بھی زیادہ والہا نہ عقیدت اور محبت کرنے والے تحفظِ ختم نبوت کے پروانوں دیوانوں اور جا نثارانِ حبیب خدامحمد مصطفیٰﷺکے جذبات کا احترام کرتے ہوئے عاشقانِ رسولﷺ کے بھڑکتے جذبات اور مُلک میں آئندہ دِنوں میں پیدا ہونے والی غیریقینی صورت حال کو ختم کرنے میں بڑی حد تک اچھا کردار اداکیا بہر حال ،الیکشن ایکٹ 2017ءمیں حلف نا مے کو اقرار نا مے میں تبدیل کئے جا نے والے عمل سے متعلق نوازشریف کا یہ کہنا کہ اِس کے بارے میں اِنہیں آگا ہ نہیں کیا گیا تھا “ اپنے اندر بہت سے سوالات اور راز ضرور پوشیدہ رکھتا ہے؟؟ یہ بات اتنی آسا نی سے دبنے والی تو نہیں ہے جنتی کہ نوازشریف سمجھ رہے ہیں ، یہ بتایا جا ئے پہلے اِس ایکٹ کو تبدیل ہی کرنے کی سوچ کیو نکر آئی ؟؟ اِس سے کس کو کیا اور کتنا فا ئدہ تھا؟؟ اِن سوالات کا نواز شریف اور ن لیگ حکومت کے ذمہ داران خود جوا بات دے دیںتو ٹھیک ہے ورنہ عوام تو سب جا نتے ہی ہیں، حکومت سے دیدہ دانستہ یہ غلطی سرزد ہو گئی تھی تو حکومت نے اپنی غلطی کو تسلیم بھی کیا اور اِس کو پچھلی والی حالت میںبحا ل بھی کیا ۔
بہر کیف ،یہ بڑی تعجب اور حیرت انگیز بات ضرور ہے کہ پاکستانی قوم اپنی خصلت اور جبلت کے اعتبار سے دنیا کی بہت سی ترقی یا فتہ اقوام کے مقا بلے میں منفرد مقا م کی حا مل قوم ہے،حالت ِ کسمپری میں بھی خطرات اور چینلجز سے نبرد آزما ہونا اِس قوم کا طرہ ا متیاز بن گیا ہے، جبکہ دنیا کے ترقی یا فتہ مما لک میں بسنے والی اقوام کی فطرت رش سے بچنے ،گھنٹوں ٹریفک جام رہنے اوراندھیروں سے گھبرا نے ، شور شرا بے سے اجتناب برترنے کی عادی ہے اِس کے برعکس میری پاکستا نی قوم اِن تمام حا لت میںانجوا ئے کرکے سکون حا صل کرتی ہے ،اور ہما رے علاوہ ترقی یافتہ اقوام کو اپنی جدید اور پُر آسا ئش زندگی پر نا ز ہے اور اُسے اپنی قسمت سے بھی کو ئی شکوہ نہیں ہے۔
جبکہ ا یک ہماری پاکستان قوم ہے کہ جِسے تمام بنیادی حقوق اور سہولیات زندگی سے محروم رہ کر بھی اپنے کرپٹ ترین حکمر انو، سیاستدانو اور وفاقی و صو با ئی حکومتوں کے ماتحت اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فا ئز بیوروکریٹس سربراہوں سے بھی کبھی کو ئی نہ شکا یت رہی ہے اور نہ ہی کوئی گلہ ہے میری یہ کیسی بے حس قوم ہے؟؟ کہ یہ ہرحال میں صبر و شکراور قناعت پر گزارا کرتی ہے ، اِسے اپنے حقوق لینے ہی نہیں آئے ہیں ستر سالوں سے تو یہیکچھ دیکھنے میں آیا ہے میری یہ پا کستا نی قوم تمام مصائب اور پریشا نیاں برداشت کرکے بھی اپنے حقوق غضب کرنے والے سِول اور آمر حکمرا نو ں اور اِن کے اِدھر اُدھر کے لگے لپٹے حواریوں کے پیچھے ہی ” ایک واری پھر “ کا نعرہ لگا تے ایک وفادرار جا نور کی طرح دُم ہلاتے اور اِن کے تلوے چاٹتے گھومتی پا ئی جا تی ہے ۔
تا ہم اِس منظر اور پسِ منظر کے برعکس جب کبھی پاکستانی قوم کے بنیادی حقوق غضب کرنے اور اِسے صریحاََ مسائل اور مشکلات اور پریشا نیوں کے دلدل میں دھکا دینے والے اِس کے حکمرا نوں اور سیاستدانوں نے کسی کے اشارے پر اِس کے جذبہ ایما نی اور تقدس نبی کریم حضر ت محمد مصطفیﷺ کے مجروح کرنے کی نا پاک جسارت بھی کی تو میری یہ غریب اور بےکس و مجبور قوم اپنے جذبہ ایما نی اور شانِ رسالتﷺ کے تحفظ کے لئے یکدل اور یک جان ہو کر سیسہ پلا ئی ہوئی دیوار بن مخالفین کے سا منے کھڑی ہو گئی اور پھر اِس سے ا پنی جا نوں کا نذرا نہ پیش کرنے سے لے کر جو بن سکا میری پاکستا نی قوم نے بیدریغ ہوکروہ سب کچھ کیا اور اپنے عزم و ہمت اور حو صلے کے بدولت اپنے نیک مقاصد میںکا میا ب ہو ئی ہے ۔
رواں سال 28جولا ئی کو سپریم کورٹ سے اپنی نا اہلی کے فیصلے کے بعدپھو نک پھو نک کر قدم رکھتے نوازشریف نے مُلکی آئین اور اداروں کے اختیارات اور حدود کی جس انداز سے بخیے اُدھیڑنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے اِس کی مثال تو مُلکی تا ریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے ا بھی تک یہ نقطہ اور بات سمجھ نہیںآرہی ہے کہ مُلک کے احساس اداروں کے خلاف کینچی جیسی نوازشریف اور ن لیگ والوں کی چلتی زبان پر دوسروں کے لئے فوراََ حرکت میں آتے اور اُٹھا پٹک کرتے اداروں نے برداشت کا جام پی کر صبرو استقامت کی تو حد ہی کر دی ہے ور نہ آج تک جس طرح سا بق وزیراعظم اور زبردستی اپنے حق میں ووٹ لے کرایک بار پھرچار سال کے لئے اپنی پا رٹی پا کستان مسلم لیگ (ن)کا دوبارہ صدرمنتخب ہونے والے مسٹر نوازشریف نے تو مُلک میں آئین اور قا نون کا شیزارہ بکھیر نے کی ابتداکرکے مُلک کو انارگی اور اشتعال انگیزی میںجھونکنے کے لئے کیا پہلے ہی کو ئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ اُوپر سے حکومت اور اپوزیشن نے اپنے بیرونی آقا و ¿ں امریکا اور یورپ والوں کو خوش کرنے کے خاظرجس جا بکدستی سے اور تُرنت انتخا بی اصطلاحات بل کی منظوری کے دوران کاغذاتِ نا مزدگی فا رم اے کے حلف نا مے کو اقرار نا مے میں تبدیل کرکے اُن کے مقا صد پر پورا اُتر نے کی سعی کی تھی اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن والے کن کے اشاروں پہ کا م کرتے ہیں وہ تو بھلا ہوعاشقانِ رسولﷺ کا کہ اِنہوں نے الیکشن ایکٹ 2017ءمیں حلف نا مے کو اقرار نا مے میں تبدیل کئے جا نے والے بل کی منظوری کے خلا ف پُرزور آوازِ حق بلند کی جس سے ایوانوں میں بیٹھے اغیار کے یاروں کے جسموں پر تھرتھری آئی او راِن کے پاو ¿ں کانپنے لگے اِنہیں اپنا وجود خطرے میں نظر آیا تو اُنہوں نے فوراََ الیکشن ایکٹ 2017ءکو بحال کر دیا۔