افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں سلامتی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے گزشتہ چار برسوں کے دوران بچوں کے خلاف تشدد کے چودہ ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں تقریباً 3,500 بچے ہلاک اور 9 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس عالمی ادارے کے سربراہ انتونیو گوٹیرش نے تمام جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کی اس خطرنک ترین حد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ کہ بچے ابھی تک اس مسلح تنازعے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ان کے بقول اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ 2015ء اور 2018ء کے دوران بارہ ہزار چھ سو بچے ہلاک و زخمی ہوئے اور یہ شرح عام شہری ہلاکتوں کی ایک تہائی بنتی ہے، ”یہ اس سے قبل کے چار برسوں کے مقابلے میں بیاسی فیصد کا اضافہ ہے۔‘‘ گوٹیرش کے بقول حکومتی اور حکومت کے حامی دستوں کی کارروائیوں میں اتنی بڑی تعداد میں خاص طور پر بچوں کی ہلاکتوں پر انہیں انتہائی تشویش ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015ء کے بعد خاص طور پر فضائی کارروائیوں میں بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گوٹیرش کے بقول مسلح تنظیمیں 43 فیصد بچوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داری ہیں اور ان میں طالبان پیش پیش ہے۔
اسی طرح گزشتہ چار برسوں میں اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بچوں کی تیس فیصد ہلاکتوں کی ذمہ داری حکومتی اور حکومت کے حامی دستوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔
گوٹیرش کے مطابق اقوام متحدہ مسلح گروہوں کی جانب سے بچوں کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں اور بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی بھی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مہینوں میں طالبان کے 45 سے 60 ہزار جنگجو متحرک ہیں جبکہ حقانی گروپ بھی طالبان کی عسکری کارروائیوں میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح القاعدہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مشرقی افغانستان کے پہاڑوں تک ہی محدود ہے اور اسلامک اسٹیٹ بھی اسی علاقے میں متحرک ہے، جس کے جگجوؤں کی تعداد ڈھائی سے چار ہزار کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔