افغانستان اتحادی افواج کے اسلحہ کی پاکستان کو فروخت کا مخالف

Forces

Forces

کابل (جیوڈیسک) بھارت کے بعد افغانستان نے بھی اتحادی افواج کے زیر استعمال فوجی سازوسامان پاکستان کو فروخت کرنے کی مخالفت کر دی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تیرہ برس کی طویل افغان جنگ کے اختتام پر امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ اس دوران وہاں اتحادی افواج کے زیر استعمال فوجی سازوسامان کو واپس امریکا لے جانے کے بجائے کسی ملک کو فروخت کر دیا جائے۔

اس ملٹری ہارڈ ویئر میں جہاں کئی اہم آلات ہیں وہیں ان میں ایسی کمپویٹرائزڈ بکتر بند گاڑیاں بھی ہیں جو باردودی سرنگوں کے دھماکوں کی شدت بھی سہہ سکتی ہیں۔ افغانستان میں جہاں نیٹو کے فوجی مشن کے اختتام کی تیاریاں جاری ہیں وہیں یہ معاملہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ اس جنگ کے بعد ایسے اضافی عسکری سامان کا کیا کیا جائے جو واپس امریکا لے جانا انتہائی مہنگا ثابت ہو گا۔

ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس عسکری سامان کی فروخت جنوبی ایشیا کے ممالک کے مابین ایک نئی کشیدگی بھی پیدا کر سکتی ہے۔ کابل حکومت نے پاکستان کو کسی بھی قسم کا فوجی سازوسامان فروخت کرنے پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے جبکہ بھارت میں بھی اس حوالے سے تشویش پیدا ہو سکتی ہے۔

کابل کا کہنا ہے کہ اضافی عسکری سازوسامان اٰفغان حکومت کے حوالے کیا جائے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان امریکی عسکری سامان خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے تاہم پینٹاگون اس بارے میں غور کر رہا ہے۔ قبل ازیں امریکی فوج نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجی سامان میں سے اسلام آباد حکومت کو کوئی چیز نہیں دی جائے گی۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان مارک رائٹ نے کہا کہ کوشش ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کے زیر استعمال سامان نیٹو فوجی مشن کے بعد کسی قریبی ملک کو فروخت کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سامان میں 800 MRAP نامی بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں جن کو واپس لے جانا انتہائی مہنگا پڑے گا۔

اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج کو ان گاڑیوں کی ضرورت ہے کیونکہ بارودی سرنگیں پاکستانی شدت پسندوں کا بھی ایک اہم ہتھیار تصور کی جاتی ہیں۔ ادھر کابل میں صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا ہے کہ ہم ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرتے ہیں جس میں کابل حکومت سے مشورہ نہیں کیا جائے گا اور ہم نے یہ بات واشنگٹن حکومت کو بتا دی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ امریکا اور افغانستان کے سٹریٹجک تعاون کی بنیادی اقدار کے خلاف ہو گا۔