افغان کمانڈر عسکریت پسندوں سے مل گیا

 Afghan Commander

Afghan Commander

کابل (جیوڈیسک) افغان فوج کے ایک سپیشل فورسز یونٹ کا کمانڈر کافی زیادہ اسلحے اور فوجی سازوسامان کے ساتھ طالبان عسکریت پسندوں کے اتحادی باغی گروپ حزب اسلامی سے جا ملا۔ یہ بات مشرقی افغان صوبے کنڑ میں اعلی سرکاری ذرائع نے بتائی۔

اس فوجی کمانڈر کا نام ”منصف خان” بتایا گیا ہے جس نے کنڑ کے صوبائی دارالحکومت اسد آباد میں عید الاضحی کی چھٹیوں کے دوران پہلے اپنے ملٹری یونٹ کے کئی ارکان کو عید کی چھٹیوں پر بھیج دیا اور پھر باقی کو اپنی طرف سے رقم دے کر یہ مشورہ دیا کہ وہ تفریح کے لیے چلے جائیں۔ اپنے ماتحت اہلکاروں کی عدم موجودگی میں ”منصف خان” نے اپنے 20 رکنی سپیشل فورسز یونٹ کے سپلائی سینٹر سے بہت سا اسلحہ اور جدید عسکری سازوسامان اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ کنڑ کے صوبائی گورنر شجاع الملک جلالہ کے بقول یہ پہلا موقع ہے کہ افغان سپیشل فورسز کا کوئی کمانڈر حزب اسلامی نامی عسکریت پسند تنظیم سے جا ملا ہے۔

حزب اسلامی کے ایک ترجمان زبیر صدیقی نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ کمانڈر ”منصف خان” اب اس تنظیم میں شامل ہو گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق منصف خان اپنے ساتھ 15 گنیں، کافی زیادہ فوجی سازوسامان اور ایک فوجی گاڑی بھی لایا۔ صوبائی گورنر شجاع الملک جلالہ نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ افغان آرمی کے خصوصی فرائض انجام دینے والے دستوں کے ایک یونٹ کا یہ کمانڈر اپنے یونٹ سپلائی سینٹر سے 30 بندوقیں، متعدد فوجی دوربینیں، ایک فوجی گاڑی اور NVD کہلانے والے بہت سے ایسے آلات بھی ساتھ لے گیا جو فوجی رات کے وقت اندھیرے میں چیزوں کو بہتر طور پر دیکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو کی قیادت میں فرائض انجام دینے والے آئی سیف دستوں کے ارکان کو کافی عرصے سے اپنے خلاف اپنے ہی افغان ساتھی فوجیوں کے بڑھتے ہوئے خونریز حملوں کا سامنا ہے۔

ایسی کارروائیوں کو اندرونی حملے کہا جاتا ہے۔ ساتھ ہی افغان سکیورٹی فورسز کے ارکان کے طالبان باغیوں یا ان کے اتحادی عسکریت پسندوں کے ساتھ جا ملنے کے واقعات بھی کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ یہ صورت حال افغان فورسز کی کارکردگی کے علاوہ اتحادی فوجی دستوں کی طرف سے ان کے افغان ساتھیوں پر اعتماد پر بھی منفی طور پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

افغانستان میں ستمبر کے مہینے میں مقامی سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے غیر ملکی فوجیوں پر ہلاکت خیز حملوں کے چار واقعات پیش آئے۔ اس طرح سال رواں کے دوران ایسے جان لیوا واقعات کی تعداد اب تک 10 ہو چکی ہے۔