کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں جاری مذاکرات میں چار ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو طالبان کے دور کے بعد سے عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہی ہیں۔
قطر میں جاری مذاکراتی عمل میں افغان طالبان کا وفد صرف مردوں پر مشتمل ہے جبکہ کابل حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں 17 مرد اور 4 خواتین شامل ہیں۔ مذاکرات کی میز پر یہ صنفی عدم مساوات بظاہر افغان معاشرے میں عورت کے مقام کی عکاسی کرتی ہے۔
ہفتےکو بات چیت شروع ہونے سے قبل مذاکرات میں شامل فوزیہ کوفی نے کہا کہ طالبان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ وہ ایک نئے افغانستان کا سامنا کر رہے ہیں۔ کوفی کے بقول، ”انہیں اسے قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔‘‘
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن فوزیہ کوفی پر ماضی میں دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ وہ گزشتہ ماہ بھی ایک جان لیوا حملے میں زندہ بچ گئی تھیں۔ کوفی نے اس حملے سے قبل کہا، ”افغانستان میں خواتین کے لیے نمایاں عہدوں میں پر کام کرنا عام بات نہیں، لہذا آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان اپنی جگہ بنانی پڑتی ہے جو عورت کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے دور حکومت میں ان کے شوہر کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کو ناخن پالش لگانے پر سنگسار کرنے کی دھمکی دی گئی۔ کوفی نے بتایا کہ مذہبی پولیس خواتین کو مکمل برقعہ نہ پہننے پر سڑکوں پر کوڑے مارتی تھی اور کئی عورتوں کو بدکاری کا الزام لگا کر سرِ عام اسٹیڈیم میں پھانسیاں دی گئیں۔
حالیہ برسوں کی مسلسل کوششوں کے بعد افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ دارالحکومت کابل اور دیگر شہروں میں خواتین کو تعلیم اور ملازمت تک رسائی دینے کے حوالے سے بہتری آئی ہے۔
ایک اور خاتون مذاکرات کار اور اسلامی قانون کی ماہر فاطمہ گیلانی کے مطابق بات چیت میں ‘مشترکہ اقدار‘ جیسے کہ اسلام اور افغانستان کے تنازعہ میں جنگ بندی کے حصول پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔ گیلانی کے بقول، ”میں ایک ایسا افغانستان دیکھنا چاہتی ہوں جہاں آپ خطرہ محسوس نہ کریں – اگر ہم ابھی یہ حاصل نہ کرسکے تو کبھی نہ کرسکیں گے۔‘‘
ناقدین کے مطابق طالبان نے ابھی تک خواتین کے حقوق کے بارے میں واضح گارنٹیاں دینے کی بجائے مبہم دعوے کیے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی اقدار کے تحت خواتین کو ان کے حقوق دینے کے حامی ہیں۔
فوزیہ کوفی ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جو سن 2019 میں طالبان کے ساتھ غیرسرکاری بات چیت میں شریک تھیں اور ان کو بات چیت کے دوران خواتین کو پیش آنے والی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔ کوفی کے بقول، ”خاتون کی بات پر توجہ دینے کے بجائے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے اسکارف کا سائز درست ہے یا نہیں۔‘‘
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے بعد کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات مارچ میں شروع ہونے والے تھے لیکن سنگین جرائم میں زیر حراست سینکڑوں طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے یہ عمل تاخیر کا شکار ہو گیا۔ یہ مذاکرات بالآخر گذشتہ روز سے شروع ہوچکے ہیں۔
افغانستان کی پہلی صوبائی خاتون گورنر حبیبہ سرابی بھی اس مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ 62 سالہ سرابی نے کہا کہ مذاکرات کا آغاز ‘بہت مثبت‘ ہوا ہے۔ مذاکراتی ٹیم میں افغان خواتین کے وفد کی چوتھی رکن شریفہ زرماتی ہیں جو سابقہ براڈکاسٹر اور صوبے پکیتا کی سیاست میں متحرک ہیں۔