افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغان الیکشن کمیشن کی جانب سے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے اعلان سے افغانستان کی صورتحال فوری طور پر بہتر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اشرف غنی کی کامیابی کو ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
افغانستان میں ستمبر میں منعقد ہونے والے انتخابات کے ابتدائی نتائج جاری کر دیے گئے ہیں، جن کے مطابق موجودہ صدر اشرف غنی 50.64 ووٹ حاصل کر کے دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخابات جیت گئے ہیں۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی صدارتی انتخابات میں غنی کے حریف عبداللہ عبداللہ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ان نتائج کو چیلنج کرنے کا کہا گیا۔
اس بیان کے مطابق، ”ہم اپنی عوام، اپنے حامیوں، الیکشن کمیشن اور اپنے بین الاقوامی اتحادیوں پر ایک مرتبہ پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری ٹیم انتخابات کے اس نتیجے کو اس وقت تک قبول نہیں کرے گی، جب تک ہمارے مطالبات پر غور نہیں کیا جاتا۔‘‘ چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ کو تقریباً چالیس فیصد ووٹ ملے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے فوری بعد ہی اپنی کامیابی کا دعویٰ کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی سربراہ حوا علم نورستانی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران تاہم یہ بھی کہا کہ یہ حتمی سرکاری نتائج نہیں ہیں اور اشرف غنی کے انتخابی مخالفین اگر چاہیں، تو وہ ان ابتدائی نتائج کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ امیدواروں کے پاس اپنی شکایات درج کرانے کے لیے تین دن کی مہلت ہے۔ امید ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں حتمی نتائج جاری کر دیے جائیں گے۔ ابتدائی طور پر ان نتائج کا اعلان انیس اکتوبر کو کیا جانا تھا۔
اگر حتمی نتیجہ بھی یہی رہتا ہے تو انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزشتہ مہینوں کے دوران افغانستان میں کسی ممکنہ متنازعہ انتخابی نتائج کی صورت میں سیاسی بحران کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
2014ء میں ہونے والے انتخابات میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں ہی نے کامیابی کے دعوے کیے تھے۔ بعد ازاں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کی ثالثی کے بعد اشرف غنی سربراہ مملکت اور عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکیٹو بننے پر رضامند ہو گئے تھے۔