امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن کے مطابق افغانستان میں حکومتی دستوں کا پہلا کام طالبان عسکریت پسندوں کی پیش قدمی روکنا ہے اور طالبان کی یلغار کی رفتار میں کمی کے بعد ہی ان کے زیر قبضہ علاقے آزاد کرانے کی کوشش کی جانا چاہیے۔
امریکی ریاست الاسکا میں ملکی فضائیہ کی آئلسن ایئر بیس پر ہفتہ چوبیس جولائی کی شام وزیر دفاع آسٹن نے کہا کہ افغان حکومتی دستے اسٹریٹیجک حوالے سے ملک کے اہم حصوں میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کے مطابق، ”طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی کوششوں سے قبل افغان سکیورٹی فورسز کو یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے پیش قدمی کا زور توڑ دیں۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے آئلسن ایئر بیس کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا، ”وہ (افغان حکومتی دستے) ملک کے اہم اور زیادہ آبادی والے علاقوں کے ارد گرد اپنی پوزیشن مستحکم بنانے میں مصروف ہیں۔‘‘
افغانستان میں تقریباﹰ بیس سال تک تعیناتی کے بعد وہاں سے امریکی فوج کا انخلا صدر جو بائیڈن کے حکم پر 31 اگست کو مکمل ہو جائے گا۔ لیکن امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی انخلا کے بعد کیا کابل حکومت کی فورسز طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی روک سکیں گی؟
اس بارے میں امریکی وزیر دفاع نے کہا، ”آیا افغان سکیورٹی دستے طالبان کی پیش قدمی کو روک پائیں گے یا نہیں، میری رائے میں افغان دستوں کے لیے کرنے کا پہلا کام تو یہ ہے کہ وہ (طالبان کی) پیش قدمی کی رفتار میں کمی کو یقینی بنائیں۔‘‘
امریکی وزیر دفاع نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ افغان دستوں کے پاس یہ اہلیت ہے کہ وہ طالبان کو روکنے کے عمل میں پیش رفت کا مظاہرہ کریں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا، ”مگر ہم دیکھیں گے کہ ہوتا کیا ہے؟‘‘
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کافی تیزی آ چکی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے چند روز قبل ہی کہا تھا کہ اس کے اندازوں کے مطابق طالبان اب تک ملک کے کُل تقریباﹰ 400 ضلعی مراکز میں سے نصف سے زائد پر قابض ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ملک کے 34 صوبوں میں سے تقریباﹰ نصف کے دارالحکومتوں پر اپنا دباؤ بھی بڑھاتے جا رہے ہیں۔
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
اسی بدلتی ہوئی اسٹریٹیجک صورت حال کے تناظر میں کابل میں وزرات داخلہ نے کل ہفتہ چوبیس جولائی کے روز اعلان کیا تھا کہ حکومت نے ملک کے کُل 34 صوبوں میں سے 31 میں رات کا کرفیو نافذکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کرفیو روزانہ رات دس بجے سے لے کر صبح چار بجے تک نافذ رہا کرے گا۔
تقریباﹰ پورے ملک میں رات کو کرفیو لگانے کے اس فیصلے پر عمل درآمد 24 اور 25 جولائی کی درمیانی شب شروع ہو گیا۔
وزارت داخلہ کے مطابق ‘طالبان کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے‘ اس شبینہ کرفیو کے نفاذ سے جن صرف تین صوبوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے، وہ کابل، پنج شیر اور ننگرہار ہیں۔