افغان فورسز اسکولوں کو رہائش کے لیے استعمال کر رہی ہیں: ہیومن رائٹس واچ

Schools

Schools

افغانستان (جیوڈیسک) رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بغلان صوبے میں ایسے کم از کم بارہ اسکول ہیں جو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اسکولوں پر حملوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الااقومی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز ملک کے شمالی مشرقی صوبے بغلان میں واقع متعدد اسکولوں کو اپنی رہائش گاہوں کے طور پراستعمال کر رہی ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے حصول تعلیم کو خطرہ لاحق ہے۔

تنظیم کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے مختلف دیہات میں واقع اسکولوں کی عمارتوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بغلان صوبے میں ایسے کم از کم بارہ اسکول ہیں جو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ناصرف اسکولوں پر حملوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے بلکہ اس سے اساتذہ اور طلباء کی زندگیاں بھی خطرے سے دوچار ہو گئیں ہیں۔

افغانستان کی حکومت کی طرف سے اس بارے میں فوری طور پر کوئی ردعمل تو سامنے نہیں آیا تاہم افغان حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ بچوں کی تعلیم حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور حصول تعلیم کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’افغانستان ہیومن رائٹس آرگنائزیشن‘‘ کے سربراہ لعل گل لعل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا سب فریقوں کی ذمہ داری ہے۔

’’بہت تشویشناک بات ہے، یہ بچے ہمارے مستقبل ہیں اگر اس مستقبل پر ہم نے توجہ نا دی، حکومت نے توجہ نا دی، طالبان نے توجہ نا دی تو ہمارے مستقبل کا کیا بنے گا۔۔۔۔ ہم سب پر زور دیں گے کہ وہ بچوں کے جو حقوق ہیں اس کا مکمل احترام کریں اور ان کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کریں اور ان کی تعلیم کے ماحول کو متاثر نا کریں۔‘‘

صوبہ بغلان اس سے جڑے صوبہ قندوز کا شمار ان صوبوں میں ہوتا ہے جہاں کے مختلف اضلاع کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان عسکریت پسند ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تعلیمی مراکز کو عسکری اڈوں کے طور پر استعمال نا کریں اور جو ان جگہوں کے غلط استعمال میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی سمیت دیگر سخت اقدامات عمل میں لائے جائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ تنظیم نے طالبان عسکریت پسندوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسکولوں پر حملے نا کریں۔

افغانستان کی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ ملک میں جاری تنازع کے باعث نا صرف عام لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں بلکہ عوام کے لیے صحت کی سہولتیں اور بچوں کی تعلیم کے مواقع بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔