ماسکو (جیوڈیسک) روس کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ مذاکرات نو نومبر کو ماسکو میں ہوں گے جن میں افغان طالبان کا وفد بھی شریک ہوگا۔
روس نے کہا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی ماسکو میں ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کے لیے سینئر افغان سیاست دانوں پر مشتمل وفد بھیجنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ مذاکرات نو نومبر کو ماسکو میں ہوں گے جن میں افغان طالبان کا وفد بھی شریک ہوگا۔
بیان کے مطابق یہ پہلا موقع ہوگا کہ قطر میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کا کوئی وفد کسی اعلیٰ سطحی بین الاقوامی اجلاس میں شریک ہوگا۔
روس کے مطابق اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت، ایران، پاکستان، چین اور امریکہ کو بھی دعوت نامے بھیجے گئے ہیں۔
لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا ان میں سے کون سے ممالک روسی دعوت کے جواب میں ان مذاکرات میں حصہ لیں گے۔
روسی حکومت نے رواں سال اگست میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اپنی میزبانی میں کثیر الفریقی مذاکرات کی تجویز پیش کی تھی۔
اس کے اگلے مہینے روسی حکومت نے 12 ممالک اور افغان طالبان کواس مجوزہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
ابتداً یہ اجلاس اکتوبر میں ہونا تھا لیکن افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہہ کر روس کی دعوت مسترد کردی تھی کہ افغان طالبان کے ساتھ کوئی بھی بات چیت افغان حکومت کے تحت ہی ہونی چاہیے۔
افغان حکومت کے انکار کے بعد امریکہ نے بھی اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ افغان اور امریکی حکام کا موقف تھا کہ روس کی جانب سے ایسی کوئی بھی کوشش افغانستان میں قیامِ امن کی ان کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے جو واشنگٹن اور کابل کی آشیرباد سے کی جارہی ہیں۔
امریکہ اور افغانستان کے انکار کے باوجود چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان نے اجلاس کے لیے اپنے وفود بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
روسی وزارتِ خارجہ کے اس بیان سے ایک روز قبل برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے دعویٰ کیا تھا کہ روسی حکومت نے صدر اشرف غنی کی حکومت کی جانب سے مجوزہ بات چیت میں شرکت سے انکار کے باوجود بعض سینئر افغان سیاست دانوں کو اپنے تئیں مجوزہ اجلاس میں مدعو کرلیا تھا۔
‘رائٹرز’ کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے مذاکرات میں شرکت سے اعلان کے بعد روس نے یہ اجلاس منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اجلاس منسوخ کے بجائے موخر کیا گیا تھا اور اس دوران روسی سفارت کار افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے انہیں اس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق افغان صدر کی حکومت اس بات سے نالاں تھی کہ روسی حکام کابل کے انکار کے باوجود بات چیت کے انعقاد کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق افغان حکومت کی مرضی کے بغیر روسی سفارت کاروں نے جن رہنماؤں کو مجوزہ مذاکرات کے لیے مدعو کیا ان میں سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی شامل تھے۔
حامد کرزئی کے ایک ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ سابق صدر اجلاس میں شرکت کے لیے ماسکو ضرور جائیں گے کیوں کہ ترجمان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔