کابل (جیوڈیسک) افغان حکومت اور شدت پسند گروپ طالبان کے درمیان آئندہ دو ہفتوں کے دروان براہ راست مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان اور کابل ملک میں امن امان کے قیام کے لیے براہ راست بات چیت کررہے ہیں۔ مبصرین اور کابل حکومت نے اسے بدامنی کےشکار ملک میں قیام امن کی بحالی کے لیے غیرمعمولی پیش رفت قرار دیا ہے۔
اب تک طالبان کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سخت موقف اپنایا جاتا رہا ہے۔ طالبان کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے خلاف رہےہیں۔
طالبنان کی جانب سے صدر اشرف غنی کی حکومت کو’غیرآئینی’ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ فریقین کے درمیان حال ہی میں قطر میں ایک اجلاس ہوا جس میں دوسرے ممالک کے مندوبین نےبھی شرکت کی تھی اور افغان حکومت کے عہدیدار بھی غیر سرکاری طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے۔
افغانستان کے وزیر برائے امن عبدالسلام رحیمی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم براہ راست مذاکرات کےلیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا 15 رکنی وفد طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لے گا۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تاریخ اور جگہ کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم امید ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کےدوران فریقین میں مذاکرات کسی یورپی ملک کی میزبانی میں ہوں گے۔
افغان وزیر برائے امن امور عبدالسلام رحیمی کی کوششوں سے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس سے قبل طالبان اور افغان حکومت بالواسطہ طورپر دوحا اور ناروے میں مذاکرات میں حصہ لے چکے ہیں۔
افغان حکومت کی طرف سے مذاکرات کے اعلان پرطالبان کی طرف سے کسی قسم کا رد عمل سامنے نہیں آیا۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زیاد نے کابل کا دورہ کیا اور صدراشرف غنی سمیت دیگر حکام کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔