جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) نئی جرمن حکومت نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کے انضمام کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے گا۔
جرمنی کی نئی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے افغانستان سے جرمنی پہنچنے والے سیاسی پناہ کی درخواست گزاروں کی انٹیگریشن کورسز تک رسائی کی راہ ہم وار کر دی ہے۔ ایک ابتدائی جائزے کے بعد نینی فیزر نے افغانستان کو ایسا ملک قرار دے دیا ہے، جہاں سے آنے والے لوگوں کے لیے جرمنی میں رہائش اختیار کرنے کے اچھے امکانات ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ جرمنی میں پناہ لینے کی درخواست دینے والے افغان شہریوں کی درخواستوں پر فیصلے سے پہلے ہی انہیں انٹیگریشن کورسز میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔
جرمن حکومت میں شامل سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ملکی مائیگریشن پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
افغان شہریوں کی درخواستوں کی منظوری میں تیزی آئے گی ملکی وزیر داخلہ کے حالیہ بیان کے بعد افغانستان شام، صومالیہ اور ایریٹریا کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ نینسی فیزر کا کہنا ہے،” ہمیں ان لوگوں کو جلد جرمن معاشرے میں ضم کرنا چاہیے جن کے بارے میں ہمیں پتا ہے کہ وہ یہیں رہیں گے۔” فیزر کے مطابق وہ افغان شہری جو گزشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جرمنی پہنچے تھے وہ کم از کم کچھ عرصے تک تو واپس افغانستان نہیں جائیں گے۔
جرمن وزیر داخلہ کا مزید کہنا ہے کہ یہ اقدام اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ جرمنی اب بھی ”ہر ہفتے افغانستان سے شہریوں کو جرمنی لا رہا ہے۔”
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق نینسی فیزر کے اس اقدام کو مکمل حمایت حاصل نہیں ہے۔ ان کی اپنی وزارت میں کچھ افسران نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کا درجہ تبدیل کرنے کا فیصلہ غیر واضح ہے اور مستقبل میں یہ فیصلہ تنازعات کے شکار دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن جائے گا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں جرمن ایمپلائمنٹ ایجنسی کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ افغان جو حالیہ کشیدگی کے باعث جرمنی پہنچے ہیں وہ سن 2015کے بعد پہنچنے والے افغان شہریوں کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور انہیں انضمام میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
گزشتہ سال اکتوبر تک جرمنی نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے قریب ساڑھے پانچ ہزار افغان شہریوں کو قبول کیا تھا۔